Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
12
SuraName
تفسیر سورۂ یوسف
SegmentID
669
SegmentHeader
AyatText
{23 ـ 24} وذلك أنَّ يوسف عليه الصلاة والسلام بقي مكرَّماً في بيت العزيز، وكان له من الجمال والكمال والبهاء ما أوجب ذلك أن {راوَدَتْه التي هو في بيتها عن نفسه}؛ أي: هو غلامها وتحت تدبيرها والمسكن واحدٌ يتيسَّر إيقاع الأمر المكروه من غير شعور أحدٍ ولا إحساس بشرٍ. {و} زادتِ المصيبةُ بأن {غَلَّقَتِ الأبوابَ}: وصار المحلُّ خالياً، وهما آمنان من دخول أحدٍ عليهما بسبب تغليق الأبواب. وقد دعتْه إلى نفسها، فقالتْ: {هَيْتَ لك}؛ أي: افعل الأمر المكروه وأقبلْ إليَّ! ومع هذا؛ فهو غريبٌ لا يحتشم مثله ما يحتشمه إذا كان في وطنه وبين معارفه، وهو أسيرٌ تحت يدها، وهي سيدتُه، وفيها من الجمال ما يدعو إلى ما هنالك، وهو شابٌّ عَزَبٌ، وقد توعدته إن لم يفعل ما تأمره به بالسجن أو العذاب الأليم، فصبر عن معصية الله مع وجود الداعي القويِّ فيه؛ لأنَّه قد همَّ فيها همًّا تَرَكَهُ لله، وقدَّم مراد الله على مراد النفس الأمَّارة بالسوء، ورأى من برهان ربِّه ـ وهو ما معه من العلم والإيمان الموجب لِتَرْكِ كلِّ ما حرَّم الله ـ ما أوجب له البعد والانكفاف عن هذه المعصية الكبيرة، و {قال معاذَ الله}؛ أي: أعوذ باللَّه أن أفعل هذا الفعلَ القبيح؛ لأنَّه مما يُسْخِطُ الله ويُبْعِدُ عنه، ولأنَّه خيانةٌ في حقِّ سيِّدي الذي أكرم مثواي؛ فلا يَليقُ بي أن أقابِلَه في أهله بأقبح مقابلة، وهذا من أعظم الظُّلم، والظالم لا يفلحُ. والحاصل أنَّه جعل الموانع له من هذا الفعل: تَقْوى الله، ومراعاة حقِّ سيِّده الذي أكرمه، وصيانة نفسه عن الظُّلم الذي لا يفلح مَن تعاطاه، وكذلك ما منَّ الله عليه من برهان الإيمان الذي في قلبه يقتضي منه امتثالَ الأوامر واجتنابَ الزواجر، والجامعُ لذلك كلِّه أنَّ الله صرف عنه السوءَ والفحشاءَ؛ لأنَّه من عباده المخلصين له في عباداتهم، الذين أخلصهم الله واختارهم واختصَّهم لنفسه، وأسدى عليهم من النِّعم، وصرف عنهم من المكاره ما كانوا به من خيار خلقه.
AyatMeaning
[24,23] اور آزمائش کا یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت یوسفu عزیز مصر کے گھر میں نہایت عزت و اکرام کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ کامل حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور یہی چیز ان کی آزمائش کا موجب بنی۔ ﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ﴾ ’’تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔‘‘ یعنی یوسفu جس عورت کے غلام اور اس کے زیردست تھے اس نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کر دیے۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جہاں کسی شعور اور احساس کے بغیر اس مکروہ فعل کے مواقع میسر تھے اور اس سے بھی بڑھ کر مصیبت یہ نازل ہوئی کہ ﴿وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ ﴾ ’’اس نے دروازے بند کر دیے‘‘ اور مکان خالی ہو گیا اور دروازوں کو بند کر دینے کی بنا پر کسی کے وہاں آنے کا ڈر نہ رہا۔ اس عورت نے جناب یوسفu کو اپنے ساتھ بدکاری کی دعوت دی۔ ﴿وَقَالَتْ هَیْتَ لَكَ﴾ ’’کہنے لگی، جلدی آؤ۔‘‘ یعنی میرے پاس آؤ اور میرے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دو۔ اس کے باوجود کہ یوسفu ایک غریب الوطن شخص تھے اور ایسا شخص اس طرح اپنے غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکتا جس طرح وہ اپنے وطن میں جان پہچان کے درمیان ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس عورت کے غلام تھے اور وہ عورت ان کی آقا تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عورت میں حسن و جمال تھا۔ یوسفu خود جوان اور غیر شادی شدہ تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت دھمکی دے رہی تھی کہ اگر یوسف (u) نے اس کی خواہش پوری نہ کی تو وہ انھیں قید خانے میں بھجوا دے گی یا انھیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ مگر بایں ہمہ، جناب یوسفu اپنے اندر اس فعل کا قوی داعیہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکے رہے کیونکہ جس فعل کا ارادہ انھوں نے کر لیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو اپنے نفس کی مراد پر مقدم رکھا جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے۔ انھیں اپنے رب کی برہان نظر آئی، یعنی ان کے پاس جو علم و ایمان تھا وہ اس بات کا موجب تھا کہ وہ ہر اس چیز کو ترک کر دیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے یہ برہان حق ان کو اس بڑے گناہ سے دور رکھنے کی باعث تھی۔ ﴿قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اللہ کی پناہ‘‘ یعنی میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ کیونکہ یہ ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور کر دیتا ہے، نیز یہ فعل اپنے آقا کے حق میں خیانت ہے جس نے مجھے عزت و تکریم سے نوازا۔ پس مجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی بیوی کے ساتھ اس بدترین فعل کے ذریعے سے اس کے احسانات کا بدلہ دوں ۔ یہ تو سب سے بڑا ظلم ہے اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یوسفu نے اس قبیح فعل سے جن امور کو موانع قرار دیا وہ تھے تقوائے الٰہی، اپنے آقا کے حق کی رعایت جس نے ان کو عزت و اکرام سے نوازا تھا اور اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچانا جس کا مرتکب کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب یوسفu کو ایمان کی برہان حق سے نوازا جو ان کے قلب میں جاگزیں تھا جو ان سے اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتا تھا… اس پورے معاملے میں جامع بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوسفu سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیا تھا کیونکہ وہ ان بندوں میں سے تھے جو اپنی عبادات میں اخلاص سے کام لیتے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنے لیے خاص کر لیا اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دی اور تمام ناپسندیدہ امور کو ان سے دور کر دیا۔ بنابریں وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق میں سے تھے۔
Vocabulary
AyatSummary
[24,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List