Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 11
- SuraName
- تفسیر سورہ ھود
- SegmentID
- 649
- SegmentHeader
- AyatText
- {95} {كأن لم يَغْنَوْا فيها}؛ أي: كأنهم ما أقاموا في ديارهم ولا تنَّعموا فيها حين أتاهم العذاب. {ألا بعداً لمدين}: إذْ أهلكها اللهُ وأخزاها، {كما بَعِدَتْ ثمودُ}؛ أي: قد اشتركت هاتان القبيلتان في السَّحق والبُعد والهلاك. وشعيبٌ عليه السلام كان يسمى خطيب الأنبياء؛ لحسن مراجعته لقومه. وفي قصته من الفوائد والعبر شيء كثير: منها: أن الكفار كما يعاقَبون ويخاطَبون بأصل الإسلام؛ فكذلك بشرائعه وفروعه؛ لأنَّ شعيباً دعا قومه إلى التوحيد وإلى إيفاء المكيال والميزان، وجعل الوعيد مرتباً على مجموع ذلك. ومنها: أن نقصَ المكاييل والموازين من كبائر الذُّنوب وتخشى العقوبة العاجلة على من تعاطى ذلك، وأنَّ ذلك من سرقة أموال الناس، وإذا كان سرقتهم في المكاييل والموازين موجبةً للوعيد؛ فسرِقَتُهم على وجه القهر والغلبة من باب أولى وأحرى. ومنها: أنَّ الجزاء من جنس العمل؛ فمن بَخَسَ أموال الناس يريد زيادة ماله؛ عوقِبَ بنقيض ذلك، وكان سبباً لزوال الخير الذي عنده من الرزق؛ لقوله: {إني أراكم بخيرٍ}؛ أي: فلا تتسبَّبوا إلى زواله بفعلكم. ومنها: أن على العبد أن يَقْنَعَ بما آتاه الله ويَقْنَعَ بالحلال عن الحرام وبالمكاسب المباحة عن المكاسب المحرمة، وأنَّ ذلك خيرٌ له؛ لقوله: {بقيَّةُ الله خيرٌ لكم}؛ ففي ذلك من البركة وزيادة الرزق ما ليس في التكالب على الأسباب المحرَّمة من المَحْق وضدِّ البركة. ومنها: أن ذلك من لوازم الإيمان وآثاره؛ فإنَّه رتب العمل به على وجود الإيمان، فدلَّ على أنَّه إذا لم يوجد العمل؛ فالإيمان ناقصٌ أو معدومٌ. ومنها: أنَّ الصلاة لم تزل مشروعة للأنبياء المتقدِّمين، وأنَّها من أفضل الأعمال، حتى إنه متقرِّر عند الكفار فضلها وتقديمها على سائر الأعمال، وأنها تنهى عن الفحشاء والمنكر، وهي ميزانٌ للإيمان وشرائعه؛ فبإقامتها تكمُلُ أحوال العبدِ، وبعدم إقامتها تختلُّ أحواله الدينيَّة. ومنها: أنَّ المال الذي يرزقُهُ الله الإنسان، وإنْ كان الله قد خوَّله إياه؛ فليس له أن يصنع فيه ما يشاء؛ فإنه أمانةٌ عنده، عليه أن يقيم حقَّ الله فيه بأداء ما فيه من الحقوق والامتناع من المكاسب التي حرَّمها الله ورسوله، لا كما يزعمه الكفار ومن أشبههم؛ أنَّ أموالهم لهم أن يصنعوا فيها ما يشاؤون ويختارون، سواءٌ وافقَ حكمَ الله أو خالفه. ومنها: أن من تَكْمِلَةِ دعوة الداعي وتمامها: أن يكونَ أول مبادرٍ لما يأمر غيره به وأول منتهٍ عما ينهى غيره عنه؛ كما قال شعيبٌ عليه السلام: {وما أريدُ أنْ أخالِفَكم إلى ما أنهاكم عنه}، ولقوله تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لم تقولونَ ما لا تفعلونَ [كَبُرَ مقتًا عند اللهِ أن تقولوا ما لا تفعلون]}. ومنها: أن وظيفة الرسل وسنَّتهم وملَّتهم إرادةُ الإصلاح بحسب القدرة والإمكان، فيأتون بتحصيل المصالح وتكميلها أو بتحصيل ما يُقْدَرُ عليه منها، وبدفع المفاسدِ وتقليلها، ويراعون المصالح العامة على المصالح الخاصة. وحقيقة المصلحة هي التي تَصْلُح بها أحوال العباد، وتستقيم بها أمورهم الدينيَّة والدنيويَّة. ومنها: أنَّ مَن قام بما يقدِرُ عليه من الإصلاح؛ لم يكن مَلوماً ولا مَذْموماً في عدم فعله ما لا يقدِرُ عليه؛ فعلى العبدِ أن يُقيم من الإصلاح في نفسه وفي غيره ما يقدِرُ عليه. ومنها: أنَّ العبد ينبغي له أن لا يتَّكل على نفسه طرفة عين، بل لا يزال مستعيناً بربِّه، متوكِّلاً عليه، سائلاً له التوفيق، وإذا حصل له شيءٌ من التوفيق؛ فلينسبه لِموليهِ ومُسْديه ولا يُعْجَب بنفسه؛ لقوله: {وما توفيقي إلاَّ بالله عليه توكلتُ وإليه أُنيبُ}. ومنها: الترهيب بأخذات الأمم، وما جرى عليهم، وأنه ينبغي أنْ تُذْكَرَ القَصصُ التي فيها إيقاعُ العقوبات بالمجرمين في سياق الوعظ والزجر؛ كما أنه ينبغي ذِكْرُ ما أكرم الله به أهل التقوى عند الترغيب والحثِّ على التقوى. ومنها: أن التائب من الذنب كما يُسمح له عن ذنبه ويُعفى عنه؛ فإنَّ الله تعالى يحبُّه ويودُّه، ولا عبرة بقول من يقول: إنَّ التائبَ إذا تاب؛ فحسبُه أن يُغْفَرَ له ويعودَ عليه العفو، وأما عَوْدُ الودِّ والحبِّ؛ فإنه لا يعودُ؛ فإنَّ الله قال: {واستغفِروا ربَّكم ثمَّ توبوا إليه إنَّ ربي رحيمٌ ودودٌ}. ومنها: أنَّ الله يدفع عن المؤمنين بأسبابٍ كثيرةٍ قد يعلمون بعضها وقد لا يعلمون شيئاً منها، وربما دَفَعَ عنهم بسبب قبيلتهم وأهل وطنهم الكفار؛ كما دفع الله عن شعيبٍ رجمَ قومِهِ بسبب رهطِهِ. وأنَّ هذه الروابط التي يحصُلُ بها الدفع عن الإسلام والمسلمين لا بأس بالسعي فيها، بل ربَّما تعيَّن ذلك؛ لأنَّ الإصلاح مطلوبٌ على حسب القدرة والإمكان؛ فعلى هذا لو ساعد المسلمون الذين تحت ولاية الكفار، وعملوا على جعل الولاية جمهوريَّةً يتمكَّن فيها الأفرادُ والشعوبُ من حقوقهم الدينيَّة والدنيويَّة؛ لكان أولى من استسلامهم لدولةٍ تقضي على حقوقهم الدينيَّة والدنيويَّة، وتحرص على إبادتها وجعلهم عَمَلَةً وخدماً لهم. نعم؛ إنْ أمكن أن تكون الدولة للمسلمين وهم الحكام؛ فهو المتعيِّن، ولكن لعدم إمكان هذه المرتبة؛ فالمرتبة التي فيها دفعٌ ووقايةٌ للدين والدنيا مقدمة. والله أعلم.
- AyatMeaning
- [95] ﴿كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا﴾ یعنی گویا وہ اپنی بستیوں میں کبھی آباد ہی نہ تھے اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ایسے لگتا تھا کہ گویا انھوں نے کبھی نعمتوں سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا تھا۔ ﴿اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ﴾ ’’سنو، پھٹکار ہے مدین کے لیے‘‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مدین کو ہلاک اور رسوا کیا ﴿ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ ﴾ ’’جیسے پھٹکار ہوئی ثمود پر‘‘ یعنی پھٹکار، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور ہلاکت میں دونوں قبیلے مشترک تھے۔ حضرت شعیبu کو، قوم کے ساتھ ان کے حسن گفتگو کی بنا پر ’’خطیب الانبیاء‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قصہ سے بہت سے فوائد اور بہت سی عبرتیں مستنبط ہوتی ہیں : (۱) کفار کو جس طرح اصول اسلام کے ذریعے سے مخاطب کیا جاتا ہے اور اسی بنا پر ان کو عذاب دیا جاتا ہے، اسی طرح شرائع اسلام اور اس کی فروع میں بھی وہ مخاطب ہیں کیونکہ جناب شعیبu نے اپنی قوم کو توحید اور ناپ تول کے پورے کرنے کی دعوت دی تھی اور مجموعی طور پر توحید اور ناپ تول کو پورا کرنے کے حکم کی عدم تعمیل پر وعید کو مترتب کیا۔ (۲) ناپ تول میں کمی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مرتکب کے بارے میں ڈر ہے کہ کہیں وہ عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ ناپ تول میں کمی کرنا لوگوں کا مال چوری کرنے کے مترادف ہے۔ جب ناپ تول کے ذریعے سے چوری کرنا عذاب کی وعید کا موجب ہے تو جبر اور تغلب کے ذریعے سے لوگوں کے مال چوری کرنا بدرجہ اولیٰ وعید کا موجب ہے۔ (۳) عمل کی جزا اس کی جنس ہی سے ہوتی ہے۔ جو کوئی لوگوں کے مال کو کم کر کے خود اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کے مال میں کمی کے ذریعے سے عذاب دیا جائے گا۔ ناپ تول میں کمی اس کے رزق کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ جیسے ارشاد ہے: ﴿ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ ﴾ ’’میں تمھیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں ‘‘ اس لیے اپنے کرتوتوں کے ذریعے سے اس رزق کے زوال کا باعث نہ بنو۔ (۴) بندے پر واجب ہے کہ وہ اس رزق پر قناعت کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے، چنانچہ وہ حرام کو چھوڑ کر حلال پر اور حرام ذرائع اکتساب کو چھوڑ کر حلال ذرائع پر قناعت کرے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے ﴿ بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّـكُمْ﴾ ’’اللہ کا عطا کیا ہوا نفع تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ حلال ذرائع اکتساب میں جو برکت اور اضافۂ رزق ہے، وہ دنیا کی حرص کی خاطر حرام اسباب کسب اختیار کرنے میں نہیں ۔ اس میں سراسر مال کا زوال اور برکت کی ضد ہے۔ (۵) یہ لوازم ایمان اور اس کے آثار میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عمل کو وجود ایمان پر مترتب کیا ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عمل کا وجود نہ ہو تو ایمان ناقص یا قطعی طور پر معدوم ہے۔ (۶) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انبیائے سابقین کی شریعت میں نماز مشروع تھی، نیز یہ کہ نماز تمام اعمال سے افضل ہے۔ حتیٰ کہ کفار کے نزدیک بھی نماز کی افضلیت اور نماز کا تمام اعمال پر مقدم ہونا متحقق ہے۔ نیز ان کے ہاں یہ بات بھی متحقق ہے کہ نماز فواحش اور منکرات سے روکتی ہے اور نماز ایمان اور شرائع کی میزان ہے، نماز کو مسنون طریقے سے ادا کرنے سے بندۂ مومن کے احوال کی تکمیل ہوتی ہے اور نماز کی عدم ادائیگی سے اس کے دینی احوال میں خلل واقع ہوتا ہے۔ (۷) وہ مال جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کر رکھا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مال کا مالک بنا رکھا ہے تاہم انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرے کیونکہ یہ مال اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، لہٰذا اس پر فرض ہے کہ وہ اس میں سے لوگوں کے حقوق ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے حق کو قائم کرے اور ان ذرائع اکتساب کو اختیار کرنے سے باز رہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ اس کے برعکس کفار اور ان سے مشابہت رکھنے والے دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مال کے خود مالک ہیں اور وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں خواہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو یا مخالف۔ (۸) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ داعی کی دعوت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ خود اس کام پر عمل کرنے میں سبقت کرے جس کی طرف وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور جس کام سے وہ لوگوں کو روکتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس کام سے رک جائے، جیسا کہ جناب شعیبu نے فرمایا: ﴿ وَمَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰؔىكُمْ عَنْهُ ﴾ ’’میں نہیں چاہتا کہ میں تمھیں جن باتوں سے روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴾ (الصف: 61؍2) ’’اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔‘‘ (۹) تمام انبیاء و مرسلین کا وظیفہ اور ان کی سنت و ملت یہ ہے کہ حسب امکان اور مقدور بھر مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کے ذریعے سے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور استطاعت کے مطابق مفاسد کو دور یا کم کرتے ہیں اور مصالح خاصہ کی رعایت رکھتے ہیں … اور حقیقی مصلحت وہ ہے جس سے بندوں کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے اور جس سے ان کے دینی اور دنیاوی امور درست ہوتے ہیں ۔ (۱۰) جو کوئی مقدور بھر اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے کسی فعل کے نہ کرنے پر قابل ملامت اور قابل مذمت نہیں جس کے کرنے کی وہ قدرت اور استطاعت نہیں رکھتا۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرے۔ (۱۱) بندۂ مومن کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنے رب پر بھروسہ کرے، اسی سے مدد طلب کرے اور اسی سے توفیق کا طلب گار رہے۔ جب اسے کوئی نیک توفیق حاصل ہو جائے تو اسے توفیق عطا کرنے والی ہستی کی طرف منسوب کرے اور خود پسندی کا شکار نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَا تَوْفِیْـقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّؔلْتُ وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ ﴾ (۱۲) امم سابقہ پر جو تباہی نازل ہوئی اور عذاب کے ذریعے سے ان کو جو پکڑا گیا اس میں بندوں کے لیے ترہیب ہے اور یہ نہایت مناسب بات ہے کہ وعظ و نصیحت کے دوران گزشتہ قوموں کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں مجرموں پر عذاب نازل کیا گیا… اور اسی طرح یہ بھی مناسب ہے کہ تقویٰ کی ترغیب کے لیے اہل تقویٰ کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام سے نوازا۔ (۱۳) گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس کے تمام گناہوں سے درگزر کر کے اسے معاف کر دیا گیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے اور اس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے ’’توبہ کرنے والا جب توبہ کرتا ہے تو اس کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کو مغفرت اور عفو سے نواز دیا جائے اور رہا اللہ تعالیٰ کی محبت اور مودت کا واپس لوٹنا تو اللہ تعالیٰ کی محبت دوبارہ نہیں آتی‘‘… کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ﴾ ’’اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف لوٹ آؤ بے شک میرا رب بہت ہی رحم کرنے والا اور اپنی مخلوق سے بہت محبت رکھتا ہے۔‘‘ (۱۴) اللہ تبارک و تعالیٰ بہت سے اسباب کے ذریعے سے اہل ایمان کی مدافعت کرتا ہے بعض اسباب کا ان کو علم ہوتا ہے اور بعض اسباب کا ان کو بالکل علم نہیں ہوتا۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ ان کے قبیلے اور اہل وطن کے ذریعے سے ان کی مدافعت کرتا ہے جیسے شعیبu کو ان کے قبیلے کے سبب سے رجم ہونے سے بچایا۔ اس قسم کے روابط کے لیے جن کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور ان کی حفاظت کا حصول مقصود ہو، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسی کوشش لازم ہے کیونکہ مقدور بھر اور حسب امکان، اصلاح مطلوب ہے۔ لہٰذا اس اصول کو مدنظر رکھ کر کفار کی سلطنت میں رہنے والے مسلمان اگر اسی قسم کی کوشش کریں اور نظام حکومت کو جمہوری اصولوں پر چلانے کے لیے کام کریں جس میں افراد یا جماعتوں کے لیے ممکن ہو کہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی حقوق کی حفاظت کر سکیں تو یہ اس صورت حال سے بہتر ہے جس میں مسلمان کافر ریاست کے مطیع ہوں اور ریاست ان کے دینی اور دنیاوی حقوق کے بارے میں من مانے فیصلے کرے، مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے اور کفار کی خدمت کے لیے ان کو معمولی درجے کے کارکن اور خدام بنا ڈالے، البتہ اگر ریاست میں مسلمانوں کا اقتدار اور ان کی حکومت ممکن ہو تو اس حکومت کا قیام لازم ہے لیکن اگر اقتدار کا یہ مرتبہ حاصل نہ ہو سکے تو اس مرتبے کا حصول جس میں دینی اور دنیاوی مصالح کی حفاظت ہو، مقدم ہے۔ واللہ اعلم۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [95]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF