Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
11
SuraName
تفسیر سورہ ھود
SegmentID
649
SegmentHeader
AyatText
{87} {قالوا يا شُعيبُ أصلاتُكَ تأمُرُك أن نَتْرُكَ ما يعبدُ آباؤنا}؛ أي: قالوا ذلك على وجه التهكُّم بنبيِّهم والاستبعاد لإجابتهم له، ومعنى كلامهم: أنَّه لا موجب لنهيك لنا إلاَّ أنك تصلي لله وتتعبَّد له؛ أفإنْ كنتَ كذلك؛ أفيوجِبُ لنا أن نتركَ ما يعبدُ آباؤنا لقولٍ ليس عليه دليلٌ إلاَّ أنه موافقٌ لك؟! فكيف نتَّبعك ونترك آباءنا الأقدمين أولي العقول والألباب؟! وكذلك لا يوجِبُ قولُك لنا أن نفعلَ في أموالنا ما قلتَ لنا من وفاء الكيل والميزان وأداء الحقوق الواجبة فيها، بل لا نزالُ نفعل فيها ما شئنا؛ لأنَّها أموالُنا، فليس لك فيها تصرُّف، ولهذا قالوا في تهكُّمهم: {إنَّك لأنتَ الحليمُ الرشيدُ}؛ أي: أئنك أنت الذي الحلم والوَقارُ لك خُلُقٌ والرُّشْدُ لك سجيَّةٌ؛ فلا يصدُرُ عنك إلا رشدٌ، ولا تأمرُ إلاَّ برشدٍ، ولا تنهى إلاَّ عن غيٍّ؟! أي: ليس الأمر كذلك، وقصدُهم أنَّه موصوفٌ بعكس هذين الوصفين: بالسَّفه والغواية؛ أي: أن المعنى: كيف تكونُ أنت الحليم الرشيد، وآباؤنا هم السفهاء الغاوين؟! وهذا القول الذي أخرجوه بصيغة التهكُّم وأنَّ الأمر بعكسه ليس كما ظنُّوه، بل الأمر كما قالوه: إنَّ صلاته تأمُرُه أن ينهاهم عمَّا كان يعبدُ آباؤهم الضالُّون وأن يفعلوا في أموالهم ما يشاؤون؛ فإنَّ الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر، وأيُّ فحشاء ومنكرٍ أكبر من عبادة غير الله، ومن منع حقوق عباد الله، أو سرقتها بالمكاييل والموازين، وهو عليه الصلاة والسلام الحليم الرشيد؟!
AyatMeaning
[87] ﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰ٘وتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ﴾ ’’انھوں نے کہا، اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے‘‘ یہ بات انھوں نے اپنے نبی سے تمسخر کرتے ہوئے اور ان کی دعوت کے قبول کرنے کو بعید سمجھتے ہوئے کہی تھی۔ ان کے کلام کے معنی یہ ہیں کہ تو ہمیں ان باتوں سے صرف اس لیے منع کرتا ہے کہ تو نماز پڑھتا ہے اور اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر یہ معاملہ ہے تو کیا ہم ان معبودوں کی عبادت، جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، محض تیرے قول پر چھوڑ دیں ، جس پر کوئی دلیل نہیں ؟ سوائے اس کے کہ وہ تیری خواہش کے موافق ہے۔ پس ہم اپنے عقل مند آبا ءو اجداد کو چھوڑ کر تیری اتباع کیسے کر سکتے ہیں ؟ اسی طرح تمھارا ہمیں یہ کہنا ﴿ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا﴾ ’’یا چھوڑ دیں ہم کرنا اپنے مالوں میں جو چاہیں ‘‘ یعنی تو جو کہتا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے موافق تصرف نہ کریں بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق ماپ اور تول کو پورا کریں اور مال میں جو حقوق واجبہ ہیں ، انھیں ادا کریں ۔ ہم ایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنے اموال کے بارے میں جو چاہیں گے کرتے رہیں گے کیونکہ یہ ہمارے اموال ہیں ان میں تصرف کا تمھیں کوئی حق نہیں ۔ بنابریں انھوں نے ازراہ تمسخر کہا: ﴿ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ﴾ ’’تو تو بڑا بردبار اور راست باز ہے۔‘‘ یعنی تو تو وہ شخص ہے کہ حلم و وقار تیرا اخلاق ہے، رشد و ہدایت تیری عادت ہے، رشد و ہدایت کے سوا تجھ سے کچھ صادر نہیں ہوتا ،تو رشد و ہدایت کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا اور تو گمراہی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا… یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد درحقیقت یہ تھا کہ شعیبu اس سے برعکس حماقت اور گمراہی کے اوصاف سے متصف ہیں … اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم تو حلیم و رشید ہو اور ہمارے آباء و اجداد احمق اور گمراہ؟ اور یہ قول جس کی انھوں نے تمسخر اور استہزاء کے طریقے سے تخریج کر کے معاملے کو شعیبu کے قول کے برعکس ثابت کرنے کی کوشش کی ہے… ایسے نہیں جیسے وہ سمجھتے ہیں ۔ بلکہ معاملہ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں ۔ بے شک شعیبu کی نماز انھیں حکم دیتی ہے کہ وہ انھیں ان باطل معبودوں کی عبادت سے روکیں جن کی عبادت ان کے گمراہ آباء و اجداد کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے اموال میں ویسے ہی تصرف کریں گے جیسے ہم چاہیں گے… کیونکہ نماز خود فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت سے بڑھ کر کون سا کام برا اور فحش ہے اور اس شخص سے بڑھ کر کون فحش کاموں کا ارتکاب کرتا ہے جو اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے یا ناپ تول میں کمی کر کے ان کے مال کو چرا لیتا ہے اور شعیبu کا وصف تو حلم و رشد ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[87]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List