Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
63
SegmentHeader
AyatText
{138} أي: الزموا صبغة الله وهو دينه، وقوموا به قياماً تامًّا بجميع أعماله الظاهرة والباطنة وجميع عقائده في جميع الأوقات حتى يكون لكم صبغة وصفة من صفاتكم، فإذا كان صفة من صفاتكم أوجب ذلك لكم الانقياد لأوامره طوعاً واختياراً ومحبة، وصار الدين طبيعة لكم بمنزلة الصبغ التام للثوب الذي صار له صفة، فحصلت لكم السعادة الدنيوية والأخروية لحثِّ الدين على مكارم الأخلاق ومحاسن الأعمال ومعالي الأمور. فلهذا قال على سبيل التعجب المتقرر للعقول الزكية؛ {ومن أحسن من الله صبغة}؛ أي: لا أحسن صبغة من صبغته ، وإذا أردت أن تعرف نموذجاً يبين لك الفرق بين صبغة الله وبين غيرها من الصبغ فقس الشيء بضده، فكيف ترى في عبد آمن بربه إيماناً صحيحاً أثر معه خضوع القلب وانقياد الجوارح، فلم يزل يتحلى بكل وصف حسن وفعل جميل وخلق كامل ونعت جليل، ويتخلى من كل وصف قبيح ورذيلة وعيب فَوَصْفُهُ الصدق في قوله وفعله والصبر والحلم والعفة والشجاعة والإحسان القولي والفعلي ومحبة الله وخشيته وخوفه ورجاؤه، فحاله الإخلاص للمعبود والإحسان لعبيده، فقسه بعبد كفر بربه وشرد عنه وأقبل على غيره من المخلوقين فاتصف بالصفات القبيحة من الكفر والشرك والكذب والخيانة والمكر والخداع وعدم العفة والإساءة إلى الخلق في أقواله وأفعاله فلا إخلاص للمعبود ولا إحسان إلى عبيده؛ فإنه يظهر لك الفرق العظيم بينهما، ويتبين لك أنه لا أحسن [صبغة] من صبغة الله، وفي ضمنه أنه لا أقبح صبغة ممن انصبغ بغير دينه. وفي قوله: {ونحن له عابدون}؛ بيان لهذه الصبغة وهي القيام بهذين الأصلين الإخلاص والمتابعة؛ لأن العبادة: اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه من الأعمال والأقوال الظاهرة والباطنة، ولا تكون كذلك حتى يشرعها الله على لسان رسوله. والإخلاص أن يقصد العبد وجه الله وحده في تلك الأعمال، فتقديم المعمول يؤذن بالحصر، وقال: {ونحن له عابدون}؛ فوصفهم باسم الفاعل الدال على الثبوت والاستقرار؛ ليدلَّ على اتصافهم بذلك [وكونه صار صبغةً لهم ملازماً].
AyatMeaning
[138] یعنی اللہ کا رنگ اختیار کر لو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمھارا رنگ اور تمھاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمھاری صفت بن جائے گا تو یہ تمھارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمھاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طورپر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمھیں دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل ہو جائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند مرتبہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمھارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔ آپ اس بندۂ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں ، پس بندۂ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کاخوف اور اس سے امید رکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہو جاتا ہے۔ اس کامقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا اور اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بدکرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے اور نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔ اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہو جاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں ،نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَّنَحْنُ لَهٗ عٰؔبِدُوْنَ﴾ میں اس رنگ کی توضیح ہے۔ اللہ کا رنگ درحقیقت دو بنیادوں کو قائم کرنا ہے، یعنی اخلاص اور متابعت کیونکہ ’’عبادت‘‘ ان تمام اعمال اور ظاہری و باطنی اقوال کا جامع نام ہے جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور وہ ان پر راضی ہے۔ یہ اعمال و اقوال اس وقت تک درست قرار نہیں پاتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کی زبان پر مشروع قرار نہ دیا ہو۔ اخلاص یہ ہے کہ بندۂ مومن ان اعمال میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد بنائے۔ پس معمول کو مقدم رکھنا (یعنی ’’عَابِدُوْنَ لَہُ‘‘ کی بجائے ’’لَہُ عَابِدُوْنَ‘‘ کہنا) حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ (وَّنَحْنُ لَهٗ عٰؔبِدُوْنَ) اللہ تعالیٰ نے ان کو اسم فاعل (عَابِدُوْن) سے موصوف کیا ہے جو ثبات و استقرار پر دلالت کرتا ہے تاکہ یہ لفظ ان کے اس صفت سے متصف ہونے پر دلالت کرے۔
Vocabulary
AyatSummary
[138
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List