Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
61
SegmentHeader
AyatText
{136} هذه الآية الكريمة قد اشتملت على جميع ما يجب الإيمان به. واعلم أن الإيمان الذي هو تصديق القلب التام بهذه الأصول، وإقراره المتضمن لأعمال القلوب والجوارح، وهو ـ بهذا الاعتبار ـ يدخل فيه الإسلام وتدخل فيه الأعمال الصالحة كلها، فهي من الإيمان وأثر من آثاره، فحيث أطلق الإيمان دخل فيه ما ذكر، وكذلك الإسلام إذا أطلق دخل فيه الإيمان، فإذا قرن بينهما كان الإيمان اسماً لما في القلب من الإقرار والتصديق، والإسلام اسماً للأعمال الظاهرة. وكذلك إذا جمع بين الإيمان والأعمال الصالحة. فقوله تعالى: {قولوا}؛ أي: بألسنتكم متواطئة عليها قلوبكم، وهذا هو القول التام المترتب عليه الثواب والجزاء، فكما أن النطق باللسان بدون اعتقاد القلب نفاق وكفر، فالقول الخالي من العمل عمل القلب عديم التأثير قليل الفائدة، وإن كان العبد يؤجر عليه إذا كان خيراً ومعه أصل الإيمان، لكن فرق بين القول المجرد والمقترن به عمل القلب. وفي قوله {قولوا}؛ إشارة إلى الإعلان بالعقيدة والصدع بها والدعوة لها، إذ هي أصل الدين وأساسه، وفي قوله {آمنا}؛ ونحوه مما فيه صدور الفعل منسوباً إلى جميع الأمة إشارة إلى أنه يجب على الأمة الاعتصام بحبل الله جميعاً والحث على الائتلاف حتى يكون داعيهم واحداً وعملهم متحداً، وفي ضمنه النهي عن الافتراق. وفيه أن المؤمنين كالجسد الواحد. وفي قوله: {قولوا آمنا بالله ... } الخ؛ دلالة على جواز إضافة الإنسان إلى نفسه الإيمان على وجه التقييد، بل على وجوب ذلك، بخلاف قوله أنا مؤمن ونحوه فإنه لا يقال إلا مقروناً بالاستثناء بالمشيئة لما فيه من تزكية النفس والشهادة على نفسه بالإيمان، فقوله: {آمنا بالله}؛ أي: بأنه واجب الوجود واحد أحد متصف بكل صفة كمال، منزه عن كل نقص وعيب، مستحق لإفراده بالعبادة كلها وعدم الإشراك به في شيء منها بوجه من الوجوه. {وما أنزل إلينا}؛ يشمل القرآن والسنة لقوله تعالى: {وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة}؛ فيدخل فيه الإيمان بما تضمنه كتاب الله وسنة رسوله من صفات الباري وصفات رسله واليوم الآخر والغيوب الماضية والمستقبلة، والإيمان بما تضمنه ذلك من الأحكام الشرعية الأمرية وأحكام الجزاء وغير ذلك {وما أنزل إلى إبراهيم ... }؛ إلى آخر الآية، فيه الإيمان بجميع الكتب المنزلة على جميع الأنبياء، والإيمان بالأنبياء عموماً وخصوصاً ما نص عليه في الآية لشرفهم ولإتيانهم بالشرائع الكبار، فالواجب في الإيمان بالأنبياء والكتب أن يؤمن بهم على وجه العموم والشمول، ثم ما عرف منهم بالتفصيل وجب الإيمان به مفصلاً. وقوله: {لا نفرق بين أحد منهم}؛ أي: بل نؤمن بهم كلهم، هذه خاصية المسلمين التي انفردوا بها عن كلِّ من يدعي أنه على دين، فاليهود والنصارى والصابئون وغيرهم وإن زعموا أنهم يؤمنون بما يؤمنون به من الرسل والكتب فإنهم يكفرون بغيره فيفرقون بين الرسل والكتب، بعضها يؤمنون به وبعضها يكفرون به، وينقض تكذيبهم تصديقهم، فإن الرسول الذي زعموا أنهم قد آمنوا به قد صدق سائر الرسل وخصوصاً محمداً - صلى الله عليه وسلم -، فإذا كذبوا محمداً فقد كذبوا رسولهم فيما أخبرهم به فيكون كفراً برسولهم، وفي قوله: {وما أوتي النبيون من ربهم}؛ دلالة على أن عطية الدين هي العطية الحقيقية المتصلة بالسعادة الدنيوية والأخروية، لم يأمرنا أن نؤمن بما أوتي الأنبياء من الملك والمال ونحو ذلك، بل أمرنا أن نؤمن بما أعطوا من الكتب والشرائع، وفيه أن الأنبياء مبلغون عن الله ووسائط بين الله وبين خلقه في تبليغ دينه، ليس لهم من الأمر شيء. وفي قوله: {من ربهم}؛ إشارة إلى أنه من كمال ربوبيته لعباده أن ينزل عليهم الكتب ويرسل إليهم الرسل، فلا تقتضي ربوبيته تركهم سدى ولا هملاً، وإذا كان ما أوتي النبيون إنما هو من ربهم ففيه الفرق بين الأنبياء وبين من يدعي النبوة، وأنه يحصل الفرق بينهم بمجرد معرفة ما يدعون إليه، فالرسل لا يدعون إلا لخير ولا ينهون إلا عن كل شر، وكل واحد منهم يصدق الآخر ويشهد له بالحق من غير تخالف ولا تناقض لكونه من عند ربهم، {فلو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافاً كثيراً}؛ وهذا بخلاف من ادعى النبوة فلا بد أن يتناقضوا في أخبارهم وأوامرهم ونواهيهم كما يعلم ذلك من سبر أحوال الجميع وعرف ما يدعون إليه، فلما بين تعالى جميع ما يؤمن به عموماً وخصوصاً وكان القول لا يغني عن العمل قال: {ونحن له مسلمون}؛ أي: خاضعون لعظمته منقادون لعبادته بباطننا وظاهرنا مخلصون له العبادة، بدليل تقديم المعمول وهو {له}؛ على العامل وهو، {مسلمون}. فقد اشتملت هذه الآية الكريمة على إيجازها واختصارها على أنواع التوحيد الثلاثة: توحيد الربوبية، وتوحيد الألوهية، وتوحيد الأسماء والصفات. واشتملت على الإيمان بجميع الرسل وجميع الكتب، وعلى التخصيص الدال على الفضل بعد التعميم، وعلى التصديق بالقلب واللسان والجوارح والإخلاص لله في ذلك، وعلى الفرق بين الرسل الصادقين ومن ادعى النبوة من الكاذبين، وعلى تعليم الباري عباده كيف يقولون، ورحمته وإحسانه عليهم بالنعم الدينية المتصلة بسعادة الدنيا والآخرة. فسبحان من جعل كتابه تبياناً لكل شيء وهدى ورحمة لقوم يؤمنون.
AyatMeaning
[136] یہ آیت کریمہ ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ جان لیجیے کہ ایمان، جو ان اصولوں کے ساتھ دل کی پوری تصدیق کا نام ہے اور اس کا اقرار، قلوب اور اعضاء کے اعمال کو متضمن ہے اور اس اعتبار سے اس میں اسلام داخل ہے اور اس میں تمام اعمال صالحہ بھی داخل ہیں۔ پس تمام اعمال صالحہ ایمان کا حصہ اور اس کے آثار میں سے ہیں۔ جب ایمان کا علی الاطلاق ذکر ہو گا تو مذکورہ امور اس میں داخل ہوں گے۔ اسی طرح جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر کیا جائے گا تو ایمان بھی اس کے اندر داخل ہو گا۔ جب ایمان اور اسلام کو مقرون اور ایک ساتھ ذکر کیا جائے گا تب ایمان، قلب کے اقرار و تصدیق کا نام اور اسلام، اعمال ظاہرہ کا نام ہو گا۔ اور اسی طرح جب ایمان اور اعمال صالحہ کو جمع کیا جائے گا (تو یہی اصول ہو گا۔) ارشاد فرمایا: ﴿قُ٘وْلُوْۤا﴾ یعنی اپنی زبان سے کہو اور تمھارے دل تمھارے اس قول کی موافقت کرتے ہوں۔ یہی وہ کامل قول ہے جس پر ثواب اور جزا مرتب ہوتے ہیں، پس جیسے قلبی اعتقاد کے بغیر محض زبان سے ایمان کا اظہار نفاق اور کفر ہے۔ اسی طرح وہ قول، جو عمل سے عاری ہو، عمل قلب ہے جو تاثیر سے محروم اور بہت کم مفید ہے، تاہم اگر یہ قول کوئی بھلائی کی بات ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں ایمان بھی موجود ہو تو بندۂ مومن کو اس پر اجر ملتا ہے۔ لیکن مجرد قول اور اس قول کے درمیان فرق ہے جو عمل قلب کے ساتھ مقرون ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُ٘وْلُوْۤا﴾ میں عقیدے کے اعلان و اظہار اور اس کی طرف دعوت دینے کا اشارہ ہے کیونکہ عقیدہ دین کی اصل اور اس کی اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اٰمَنَّا﴾ وغیرہ میں جس میں فعل کا صادر ہونا مذکور ہو اور تمام امت کی طرف منسوب ہو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تمام امت پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو اکٹھے ہو کر مضبوطی سے پکڑے رکھے ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت سے رہے، یہاں تک کہ ان کا داعی ایک اور ان کا عمل متحد ہو۔ اسی سے افتراق اور تشتت کی ممانعت بھی نکلتی ہے۔ نیز اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل ایمان جسد واحد کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿قُ٘وْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے اپنے نفس کی طرف ایمان کی اضافت کرنا جائز ہے مگر مقید طور پر بلکہ اس اضافت کے وجوب کی دلیل ہے۔ اس کے برعکس (اَنَا مُؤمِنٌ) ’’میں مومن ہوں‘‘ کہنے کا معاملہ ہے، تو اس طرح کہنا صرف ان شاء اللہ کے ساتھ جائز ہے۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو پاک کہنے اور اپنے آپ پر ایمان کی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ﴾ یعنی ہم اس حقیقت پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ وہ ایک ہے وہ ہر صفت کمال سے متصف اور ہر نقص اور عیب سے منزہ ہے۔ تمام عبادات کا اکیلا وہی مستحق ہے۔ ان عبادات میں کسی بھی پہلو سے کوئی بھی ہستی اس کی شریک نہیں۔ ﴿وَمَاۤ اُ٘نْزِلَ اِلَیْنَا﴾ اس میں قرآن اور سنت دونوں شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ (النساء: 4؍113) ’’اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی۔‘‘ اس میں ان تمام چیزوں پر ایمان لانا داخل ہے جو کتاب و سنت میں ذکر کی گئی ہیں، مثلاً باری تعالیٰ کی صفات، انبیاء و مرسلین کی صفات، روز قیامت، گزرے ہوئے اور آنے والے غیبی امور، نیز تمام شرعی احکام اور ثواب و عقاب کے احکام پر ایمان لانا۔ ﴿ وَ مَاۤ اُ٘نْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰؔهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰؔقَ وَیَعْقُوْبَ ......وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾اس آیت کریمہ میں ان تمام کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو تمام انبیاء و مرسلین پر نازل کی گئی ہیں۔ عمومی اور خصوصی طور پر انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا، جو کہ اس آیت کریمہ میں منصوص ہیں ان کے شرف و تکریم کے باعث اور اس سبب سے ہے کہ وہ بڑی بڑی شریعتیں لے کر دنیا میں تشریف لائے۔ پس انبیائے کرام اور کتب سابقہ پر ایمان لانے میں جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر عمومی طورپر ایمان لایا جائے۔ پھر جس چیز کی تفصیل کی معرفت حاصل ہوجائے اس پر مفصل ایمان لایا جائے۔ ﴿وَمَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَؔ مِنْ رَّبِّهِمْ﴾ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا عطیہ ہی دراصل حقیقی عطیہ ہے جو انسان کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم انبیائے کرام کی حکومتوں اور ان کو عطا کیے گئے مال و متاع وغیرہ پر ایمان لائیں۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کو عطا کی گئی کتابوں اور شریعتوں پر ایمان لائیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیاء کرامoاللہ تعالیٰ کی طرف سے (دین) پہنچانے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین دین پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ حقیقت میں وہ کسی اختیار کے مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ مِنْ رَّبِّهِمْ﴾ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کمال ربوبیت کی بنا پر ان پر کتابیں نازل کیں اور ان کی طرف رسول مبعوث کیے ہیں۔ پس اس کی ربوبیت یہ تقاضا نہیں کرتی کہ انسانوں کو بیکار اور بے مہار چھوڑ دیا جائے۔ جب صورت یہ ہے کہ جو کچھ انبیائے کرامoکو عطا کیا گیا وہ ان کے رب کی طرف سے ہے۔ تو اس سے انبیاء کرامoاور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ نیز انبیاء کرامoاور مدعیان نبوت کے درمیان فرق ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صرف بھلائی کی دعوت دیتے ہیں اور صرف برائی سے روکتے ہیں۔ ان میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصدیق کرتا اور اس کے لیے حق کی گواہی دیتا ہے۔ ان کی دعوت میں تناقض اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی دعوت ان کے رب کی طرف سے ہوتی ہے۔ ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا﴾ (النساء : 4؍82) ’’اگر یہ (قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلافات پاتے۔‘‘ ﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ﴾ یعنی ہم تمام انبیاء پر (بلا تفریق) ایمان لاتے ہیں۔ یہ اہل اسلام کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کی بنا پر وہ ان تمام لوگوں میں منفرد ہیں جو کسی (آسمانی) دین کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس یہود و نصاریٰ اور صابی وغیرہ اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انبیاء و رسل اور کتب منزلہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ دیگر کتب کا انکار کرتے ہیں۔ پس وہ انبیاء و مرسلین اور کتب منزلہ کے مابین تفریق کرتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تکذیب خود ان کی تصدیق کو توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ وہ رسول جس کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہوتی ہے۔ خاص طور پر محمد مصطفیٰeکی۔ پس جب وہ محمد مصطفیٰeکی تکذیب کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنے رسول کی دی ہوئی خبر کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ ان کا ان کے رسول کے ساتھ کفر ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس قسم کے جھوٹے نبیوں کی دی ہوئی خبروں اور ان کے اوامر و نواہی میں ضرور تناقض ہوتا ہے جیسا کہ اس قسم کے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کی سیرت اور ان کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت حاصل کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو بیان کر دیا جن پر عمومی اور خصوصی طور پر ایمان لانا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ قول، عمل سے کفایت نہیں کرتا، تو فرمایا: ﴿وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾ یعنی ہم اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں ہم اپنے ظاہر و باطن سے اس کی عبودیت کے لیے اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ہم اس کی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کرتے ہیں اور اس مفہوم کے لیے دلیل یہ ہے کہ معمول کو عامل پر مقدم رکھا ہے ﴿لَهٗ مُسْلِمُوْنَؔ﴾ میں (لَہُ) معمول ہے اور (مُسْلِمُوْن) عامل ہے۔ (اس انداز بیان سے اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔) یہ آیت کریمہ اپنے ایجاز و اختصار کے باوجود توحید کی تینوں اقسام پر مشتمل ہے۔ وہ ہیں توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات۔ یہ آیت کریمہ تمام انبیاء و رسلoاور تمام کتابوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔ یہ آیت کریمہ عموم کے بعد اس تخصیص پر مشتمل ہے جو فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دل ، زبان اور جوارح کی تصدیق اور اخلاص للہ پر مشتمل ہے۔ یہ آیت کریمہ سچے انبیاء و رسل اور جھوٹے مدعیان نبوت کے مابین فرق و امتیاز کو شامل ہے۔ یہ آیت باری تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے اس تعلیم پر مشتمل ہے کہ وہ (اپنے ایمان کا) کیسے اظہار کیا کریں ،نیز اس کی رحمت اور بندوں پر اس کے احسان کو شامل ہے جو اس نے ان کو دینی نعمتوں سے نواز کر کیا، یہ نعمتیں انھیں دنیاوی اور اخروی سعادت کی منزل پر پہنچاتی ہیں۔ پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب کو ایسا جامع بنایا کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[136
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List