Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 11
- SuraName
- تفسیر سورہ ھود
- SegmentID
- 638
- SegmentHeader
- AyatText
- {7} يخبر تعالى أنه {خَلَقَ السمواتِ والأرضَ في ستَّة أيام}: أولها يوم الأحد، وآخرُها يوم الجمعة. {و} حين خلق السماواتِ والأرضَ، {كان عرشُهُ على الماء}: فوق السماء السابعة؛ فبعد أن خلقَ السماوات والأرض؛ استوى على عرشه، يدبِّر الأمور ويصرِّفها كيف شاء من الأحكام القدريَّة والأحكام الشرعيَّة. ولهذا قال: {لِيَبْلُوَكم أيُّكم أحسنُ عملاً}؛ أي: ليمتَحِنَكم إذ خَلَقَ لكم ما في السماوات والأرض بأمره ونهيه، فينظر أيُّكم أحسنُ عملاً. قال الفضيل بن عِياض رحمه الله: أخلصُه وأصوبُه. قيل: يا أبا علي! ما أخلصه وأصوبه؟ فقال: إنَّ العمل إذا كان خالصاً ولم يكن صواباً؛ لم يُقْبَلْ، وإذا كان صواباً ولم يكن خالصاً؛ لم يُقْبَلْ، حتى يكون خالصاً صواباً. والخالص: أن يكون لوجه الله، والصواب: أن يكون متَّبِعاً فيه الشرع والسُّنة. وهذا كما قال تعالى: {وما خلقتُ الجِنَّ والإنس إلا ليعبدونِ}، وقال تعالى: {اللهُ الذي خلق سبع سمواتٍ ومن الأرض مثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأمر بينَهنَّ لِتَعْلموا أنَّ الله على كلِّ شيءٍ قديرٌ وأن الله قد أحاطَ بكلِّ شيءٍ علماً}: فالله تعالى خلق الخلق لعبادته ومعرفته بأسمائه وصفاته، وأمرهم بذلك؛ فمن انقاد وأدَّى ما أمِرَ به؛ فهو من المفلحين، ومن أعرض عن ذلك؛ فأولئك هم الخاسرون، ولا بدَّ أن يجمَعَهم في دار يجازيهم على ما أمرهم به ونهاهم. ولهذا ذكر الله تكذيب المشركين بالجزاء، فقال: {ولئن قلتَ إنَّكم مبعوثون من بعدِ الموت لَيقولَنَّ الذين كفروا إنْ هذا إلاَّ سحرٌ مبينٌ}؛ أي: ولئن قلتَ لهؤلاء وأخبرتَهم بالبعث بعد الموت؛ لم يصدِّقوك، بل كذَّبوك أشدَّ التكذيب ، وقدحوا فيما جئت به، وقالوا: {إنْ هذا إلا سحرٌ مُبين}: ألا وهو الحقُّ المبين.
- AyatMeaning
- [7] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اسی نے ﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ﴾ ’’پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں ‘‘ پہلا دن اتوار اور چھٹا دن جمعہ تھا اور جس وقت اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ﴿ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ ﴾ ’’اس کا عرش پانی پر تھا‘‘ ساتویں آسمان کے اوپر۔ پس آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے کے بعد اپنے عرش پر مستوی ہوا، وہ تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اور احکام قدریہ اور احکام شرعیہ میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ لِیَبْلُوَؔكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ ’’تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔‘‘ تاکہ وہ اپنے اوامر و نواہی کے ذریعے سے تمھارا امتحان لے اور دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فضیل بن عیاضa نے فرمایا: ’’سب سے اچھا عمل وہ ہے جو سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح ہو۔‘‘ ان سے پوچھا گیا ’’سب سے خالص اور سب سے زیادہ صحیح سے کیا مراد ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اگر عمل خالص ہو مگر صحیح نہ ہو تو قبول نہیں ہوتا اور اگر عمل صحیح ہو مگر خالص نہ ہو تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول نہیں ۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہوتا ہے جو خالص بھی ہو اور صحیح بھی ہو۔‘‘ خالص عمل وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو اور صحیح عمل وہ ہے جس میں شریعت اور سنت کی پیروی کی گئی ہو اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْ٘سَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ﴾ (الذاریات: 51؍56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْ٘لَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 65؍12) ’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور ان کی مانند سات زمینیں اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کا حکم اترتا رہتا ہے تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام مخلوق کو اپنی عبادت اور اپنے اسماء و صفات کی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے اور اسی چیز کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے۔ پس جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور اس ذمہ داری کو ادا کر دیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا وہ فلاح پانے والوں میں سے ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعراض کیا تو یہی گھاٹے میں پڑنے والے لوگ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ایک جگہ جمع کرے گا اور پھر ان کو اپنے اوامر و نواہی کی بنیاد پر جزا دے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جزا کے بارے میں مشرکین کی تکذیب کا ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّـكُمْ مَّبْعُوْثُ٘وْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَ٘نَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’اور اگر آپ کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘ یعنی اگر آپ ان سے کہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے بارے میں ان کو آگاہ کریں تو یہ آپ کی تصدیق نہیں کریں گے بلکہ وہ نہایت شدت سے آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ کی دعوت میں عیب چینی کریں گے اور کہیں گے ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلے جادو کے علاوہ کچھ نہیں ‘‘ مگر آگاہ رہو کہ یہ واضح حق ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [7]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF