Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 10
- SuraName
- تفسیر سورۂ یونس
- SegmentID
- 627
- SegmentHeader
- AyatText
- {94} يقول تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {فإن كنتَ في شكٍّ مما أنزلنا إليك}: هل هو صحيحٌ أم غير صحيح، {فاسأل الذين يقرؤون الكتاب من قبلك}؛ أي: اسأل أهل الكتب المنصفين والعلماء الراسخين؛ فإنهم سيقرُّون لك بصدق ما أخبرت به وموافقته لما معهم. فإن قيل: إن كثيراً من أهل الكتاب من اليهود والنصارى، بل ربما كان أكثرهم ومعظمهم، كذَّبوا رسول الله، وعاندوه، وردُّوا عليه دعوته، والله تعالى أمر رسوله أن يستشهدَ بهم، وجعل شهادتَهم حجةً لما جاء به وبرهاناً على صدقه؛ فكيف يكونُ ذلك؟! فالجوابُ عن هذا من عدة أوجه: منها: أنَّ الشهادة إذا أضيفت إلى طائفةٍ أو أهل مذهبٍ أو بلدٍ ونحوهم؛ فإنَّها إنما تتناول العدول الصادقين منهم، وأما مَنْ عداهم؛ فلو كانوا أكثر من غيرهم؛ فلا عبرة فيهم؛ لأن الشهادة مبنيَّة على العدالة والصدق، قد حصل ذلك بإيمان كثيرٍ من أحبارهم الرَّبانيِّين؛ كعبد الله بن سلام وأصحا به وكثيرٍ ممَّن أسلم في وقت النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وخلفائه ومن بعدهم. ومنها: أن شهادة أهل الكتاب للرسول مبنيَّة على كتابهم التوراة الذي ينتسبون إليه؛ فإذا كان موجوداً في التوراة ما يوافق القرآن ويصدِّقُه ويشهدُ له بالصحَّة؛ فلو اتَّفقوا من أولهم وآخرهم على إنكار ذلك؛ لم يقدحْ بما جاء به الرسول. ومنها: أنَّ الله تعالى أمر رسوله أن يستشهد بأهل الكتاب على صحَّة ما جاءه وأظهر ذلك وأعلنه على رؤوس الأشهاد، ومن المعلوم أن كثيراً منهم من أحرص الناس على إبطال دعوة الرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -؛ فلو كان عندهم ما يردُّ ما ذكره الله؛ لأبدَوْه وأظهروه وبيَّنوه، فلما لم يكنْ شيءٌ من ذلك؛ كان عدم ردِّ المعادي وإقرار المستجيب من أدلِّ الأدلَّة على صحَّة هذا القرآن وصدقه. ومنها: أنه ليس أكثر أهل الكتاب ردَّ دعوة الرسول، بل أكثرُهم استجاب لها وانقاد طوعاً واختياراً؛ فإنَّ الرسولَ بُعِثَ وأَكْثَرُ أهل الأرض المتديِّنين أهل الكتاب ، فلم يمكثْ دينُه مدةً غير كثيرة حتى انقاد للإسلام أكثر أهل الشام ومصر والعراق وما جاورها من البلدان التي هي مقرُّ دين أهل الكتاب ولم يبقَ إلا أهل الرياسات الذين آثروا رياساتهم على الحقِّ ومَنْ تبِعَهم من العوامِّ الجهلة ومن تديَّن بدينهم اسماً لا معنى؛ كالإفرنج الذين حقيقة أمرهم أنَّهم دهريَّة منحلُّون عن جميع أديان الرسل، وإنَّما انتسبوا للدين المسيحيِّ ترويجاً لملكهم وتمويهاً لباطلهم؛ كما يعرف ذلك من عرف أحوالهم البيِّنة الظاهرة. وقوله: {لقد جاءك الحق}؛ أي: الذي لا شكَّ فيه بوجه من الوجوه، {من ربِّك فلا تكوننَّ من الممترينَ }: كقوله تعالى: {كتابٌ أُنزِلْ إليكَ فلا يكن في صدرك حرجٌ منه}.
- AyatMeaning
- [94] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیe سے فرماتا ہے: ﴿ فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ﴾ ’’اگر آپ اس کی بابت شک میں ہیں جو ہم نے آپ کی طرف اتارا‘‘ کہ آیا یہ صحیح ہے یا غیر صحیح ہے؟ ﴿ فَسْـَٔلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ﴾ ’’تو ان سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ‘‘ یعنی انصاف پسند اہل کتاب اور راسخ العلم علماء سے پوچھیے وہ اس چیز کی صداقت کا اقرار کریں گے جس کی آپ کو خبر دی گئی ہے اور وہ یہ بھی اعتراف کریں گے وہ اس ہدایت کے موافق ہے جو ان کے پاس ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بہت سے لوگوں نے بلکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے رسول اللہe کی تکذیب کی، آپ سے عناد رکھا اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب سے اپنی صداقت پر گواہی لیں اور ان کی گواہی کو اپنی دعوت پر حجت اور اپنی صداقت پر دلیل بنائیں ... یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب متعدد پہلوؤں سے دیا جاتا ہے۔ (۱) جب شہادت کی اضافت کسی گروہ، کسی مذہب کے ماننے والوں یا کسی شہر کے لوگوں کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ان میں عادل اور سچے ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگ خواہ اکثریت ہی میں کیوں نہ ہوں ، ان کی شہادت معتبر نہیں کیونکہ شہادت، عدالت اور صدق پر مبنی ہوتی ہے اور یہ مقصد بہت سے ربانی احبار کے ایمان سے حاصل ہوگیا تھا، مثلاً:عبداللہ بن سلامt اور ان کے اصحاب اور بہت سے دیگر اہل کتاب جو نبی اکرمe اور آپ کے خلفاء کے عہد میں اور بعد کے زمانوں میں ایمان لاتے رہے۔ (۲) رسول اللہe کی صداقت پر اہل کتاب کی شہادت دراصل ان کی کتاب تورات، جس کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ، کے بیان پر مبنی ہے جب تورات میں ایسا مواد موجود ہو جو قرآن کی موافقت اور اس کی تصدیق کرتا ہو اور اس کی صحت کی شہادت دیتا ہو، تب اگر اولین و آخرین تمام اہل کتاب اس کے انکار پر متفق ہو جائیں تو ان کا یہ انکار رسول اللہe کے لائے ہوئے قرآن میں قادح نہیں ۔ (۳) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ اپنے لائے ہوئے قرآن کی صداقت پر اہل کتاب سے استشہاد کریں اور ظاہر ہے کہ یہ حکم علی الاعلان دیا گیا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل کتاب میں بہت سے لوگ رسول اللہe کی دعوت کے ابطال کے بڑے حریص تھے۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسا مواد موجود ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو رد کرسکتا تو وہ ضرور اسے پیش کرتے چونکہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی اس لیے دشمنوں کا عدم جواب اور مستجیب کا اقرار اس قرآن اور صداقت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ (۴) اکثر اہل کتاب ایسے نہ تھے جنھوں نے رسول اللہe کی دعوت کو رد کر دیا ہو بلکہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ تھے جنھوں نے آپ کی دعوت کو قبول کر لیا تھا اور انھوں نے اپنے اختیار سے آپ کی اطاعت کی کیونکہ جب رسول اللہe مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر اکثر لوگ اہل کتاب تھے۔ اسلام پر زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ شام، مصر، عراق اور ان کے آس پاس کے علاقوں کے اکثر لوگ مسلمان ہوگئے، یہ ممالک اہل کتاب کے مذہب کا گڑھ تھے۔ اسلام قبول کرنے سے صرف وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جن کے پاس سرداریاں تھیں اور جنھوں نے اپنی سرداریوں کو حق پر ترجیح دی تھی، نیز وہ لوگ باقی رہ گئے جنھوں نے ان سرداروں کی پیروی کی جو حقیقی طور پر نہیں بلکہ برائے نام اس دین کی طرف منسوب تھے، مثلاً:فرنگی، جن کے دین کی حقیقت یہ ہے کہ وہ دہریے ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین کے مذاہب کے دائرے سے خارج ہیں وہ صرف ملکی رواج کے طور پر اور اپنے باطل پر ملمع کی خاطر دین مسیح کی طرف منسوب ہیں ۔ جیسا کہ ان کے حالات کی معرفت رکھنے والے جانتے ہیں ۔ ﴿ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ﴾’’تحقیق آ گیا آپ کے پاس حق‘‘ جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں ﴿ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ﴾ ’’آپ کے رب کی طرف سے، پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ‘‘ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَؔكُ٘نْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّؔنْهُ ﴾ (الاعراف:7؍2) ’’یہ کتاب ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے، پس آپ کے دل میں کوئی تنگی نہیں آنی چاہیے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [94]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF