Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 10
- SuraName
- تفسیر سورۂ یونس
- SegmentID
- 626
- SegmentHeader
- AyatText
- {78} {قالوا} لموسى رادِّين لقوله بما لا يرد به: {أجئتنا لِتَلْفِتَنا عمَّا وَجَدْنا عليه آباءنا}؛ أي: أجئتنا لتصدَّنا عما وَجَدْنا عليه آباءنا من الشرك وعبادة غير الله وتأمرنا بأن نعبد الله وحده لا شريك له؛ فجعلوا قول آبائهم الضالين حجَّة يردُّون بها الحقَّ الذي جاءهم به موسى عليه السلام. وقوله: {وتكون لكما الكبرياءُ في الأرض}؛ أي: وجئتمونا لتكونوا أنتم الرؤساء ولتخرِجونا من أراضينا؟ وهذا تمويهٌ منهم وترويجٌ على جهالهم وتهييجٌ لعوامِّهم على معاداة موسى وعدم الإيمان به، وهذا لا يحتجُّ به من عرف الحقائق وميَّز بين الأمور؛ فإنَّ الحجج لا تُدفَعُ إلا بالحجج والبراهين، وأما من جاء بالحقِّ؛ فَرُدَّ قوله بأمثال هذه الأمور؛ فإنها تدلُّ على عجز موردها عن الإتيان بما يردُّ القول الذي جاء به خصمه؛ لأنه لو كان له حجَّة؛ لأوردها، ولم يلجأ إلى قوله: قصدك كذا أو مرادك كذا، سواء كان صادقاً في قوله وإخباره عن قصد خصمه أم كاذباً، مع أنَّ موسى عليه الصلاة والسلام كلُّ من عرف حاله وما يدعو إليه؛ عرف أنه ليس له قصدٌ في العلو في الأرض، وإنما قصده كقصد إخوانه المرسلين، هداية الخلق وإرشادهم لما فيه نفعهم. ولكن حقيقة الأمر كما نطقوا به بقولهم: {وما نحن لكما بمؤمنين}؛ أي: تكبُّراً وعناداً، لا لبطلان ما جاء به موسى وهارون، ولا لاشتباهٍ فيه، ولا لغير ذلك من المعاني سوى الظلم والعدوان وإرادة العلوِّ الذي رموا به موسى وهارون.
- AyatMeaning
- [78] ﴿ قَالُوْۤا﴾ انھوں نے موسیٰu کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا: ﴿ اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّؔا وَجَدْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَا﴾ ’’کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو تاکہ تم ہمیں اس دین سے روک دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘ مثلاً: شرک اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ اور تم ہمیں حکم دیتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں چنانچہ انھوں نے اپنے گمراہ باپ دادا کے قول کو حجت بنا لیا جس کی بنیاد پر انھوں نے اس حق کو ٹھکرا دیا جسے موسیٰu لے کر آئے تھے۔ ﴿وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِیَآءُ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے۔‘‘ یعنی تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو تاکہ تم سردار بن جاؤ اور تم ہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہر کرو۔ یہ ان کی طرف سے خلاف حقیقت بات اور جہالت کی حوصلہ افزائی ہے۔ نیز ان کا مقصد عوام کو موسیٰu کی عداوت پر ابھارنا اور ان پر ایمان لانے سے گریز کرنا ہے۔ جو شخص حقائق کو سمجھتا اور معاملات کی خامی اور خوبی میں امتیاز کر سکتا ہے وہ ان کی اس بات کو قابل حجت اور قابل اعتنا خیال نہیں کرتا کیونکہ دلائل کا رد دلائل اور براہین ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے لیکن جو شخص حق پیش کرتا ہے اور اس کی بات کو اس قسم کے اقوال سے رد کر دیا جائے تو یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رد کرنے والا ایسی دلیل لانے سے عاجز ہے جو مدمقابل کے قول کو رد کر دے کیونکہ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور پیش کرتا اور اپنے مدمقابل کو یہ نہ کہتا ’’تیرا مقصد یہ ہے‘‘ اور ’’تیری مراد وہ ہے‘‘ خواہ وہ اپنے مدمقابل کے مقصد اور مراد کے بارے میں خبر دینے میں سچا ہے یا جھوٹا... تاہم اس کے باوجود جو کوئی حضرت موسیٰu کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ موسیٰu کا مقصد زمین میں تغلب نہ تھا۔ ان کا مقصد تو وہی تھا جو دیگر انبیاء و مرسلین کا تھا... یعنی مخلوق کی ہدایت اور ان کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرنا جو ان کے لیے فائدہ مند ہیں ۔ حقیقت دراصل یہ ہے جیسا کہ خود انھوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا ﴿ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے‘‘ یعنی انھوں نے تکبر اور عناد کی وجہ سے یہ کہا تھا ’’ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ جناب موسیٰ اور ہارونu نے جو دعوت پیش کی تھی وہ باطل تھی اور اس کی وجہ یہ بھی نہ تھی کہ اس میں یا اس کے معانی وغیرہ میں کوئی اشتباہ تھا۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی اور ارادۂ تغلب کے سوا کچھ نہ تھا جس کا الزام وہ موسیٰu پر لگا رہے تھے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [78]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF