Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
56
SegmentHeader
AyatText
{125} ثم ذكر تعالى أنموذجاً باقياً دالاًّ على إمامة إبراهيم وهو: هذا البيت الحرام الذي جعل قصده ركناً من أركان الإسلام حاطاًّ للذنوب والآثام، وفيه من آثار الخليل وذريته ما عرف به إمامته وتُذُكِّرت به حالته فقال: {وإذ جعلنا البيت مثابة للناس}؛ أي: مرجعاً يثوبون إليه بحصول منافعهم الدينية والدنيوية، يترددون إليه ولا يقضون منه وطراً، وجعله {أمناً}؛ يأمن به كلُّ أحد حتى الوحش وحتى الجمادات كالأشجار، ولهذا كانوا في الجاهلية ـ على شركهم ـ يحترمونه أشد الاحترام ويجد أحدهم قاتل أبيه في الحرم فلا يهيجه، فلما جاء الإسلام زاده حرمة وتعظيماً وتشريفاً وتكريماً، {واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى}؛ يحتمل أن يكون المراد بذلك المقام المعروف الذي قد جعل الآن مقابل باب الكعبة، وأن المراد بهذا ركعتا الطواف يستحب أن تكونا خلف مقام إبراهيم وعليه جمهور المفسرين ويحتمل أن يكون المقام مفرداً مضافاً فيعم جميع مقامات إبراهيم في الحج، وهي المشاعر كلها من الطواف والسعي والوقوف بعرفة ومزدلفة ورمي الجمار والنحر وغير ذلك من أفعال الحج، فيكون معنى قوله: {مصلى}؛ أي: معبداً، أي اقتدوا به في شعائر الحج، ولعل هذا المعنى أولى لدخول المعنى الأول فيه واحتمال اللفظ له. {وعهدنا إلى إبراهيم وإسماعيل}؛ أي: أوحينا إليهما وأمرناهما بتطهير بيت الله من الشرك والكفر والمعاصي ومن الرجس والنجاسات والأقذار ليكون {للطائفين}؛ فيه {والعاكفين والركع السجود}؛ أي: المصلين، قدّم الطواف لاختصاصه بالمسجد الحرام، ثم الاعتكاف لأن من شرطه المسجد مطلقاً، ثم الصلاة مع أنها أفضل لهذا المعنى، وأضاف الباري البيت إليه لفوائد: منها: أن ذلك يقتضي شدة اهتمام إبراهيم وإسماعيل بتطهيره لكونه بيت الله فيبذلان جهدهما، ويستفرغان وسعهما في ذلك. ومنها: أن الإضافة تقتضي التشريف والإكرام ففي ضمنها أمر عباده بتعظيمه وتكريمه. ومنها: أن هذه الإضافة هي السبب الجالب للقلوب إليه.
AyatMeaning
[125] پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیمuکی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کر دینے والا قرار دیا، اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمuاور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیلuکی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا ﴿ وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنا بریں جاہلیت کے زمانے میں ، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کر دیا۔ ﴿ وَاتَّؔخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰؔهٖمَ مُ٘صَلًّى ﴾ ’’اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ‘‘ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے۔۔۔ اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہو گا، جہاں جہاں ابراہیمuکے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار (کنکریاں مارنا) اور قربانی اور دیگر افعال حج۔ پس یہاں ﴿ مُ٘صَلًّى ﴾ کا معنی ’’عبادت کی جگہ‘‘ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیمuکی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آ جاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا محتمل ہے۔ ﴿ وَعَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰؔهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیلiکی طرف وحی کر کے انھیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر ﴿ لِلطَّآىِٕفِیْنَ ﴾ طواف کرنے والوں، ﴿ وَالْعٰكِفِیْنَ وَالرُّكَّ٘عِ السُّجُوْدِ ﴾ ’’اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں‘‘ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہو جائے۔ آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ ۱ اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلiاس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کر دیں۔ ۲ اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔ ۳ یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[125
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List