Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
9
SuraName
تفسیر سورۂ توبہ
SegmentID
583
SegmentHeader
AyatText
{118} {و} كذلك لقد تاب [اللهُ] {على الثلاثة الذين خُلِّفوا}: عن الخروج مع المسلمين في تلك الغزوة، وهم كعبُ بن مالك وصاحباه، وقصَّتُهم مشهورةٌ معروفةٌ في الصحاح والسنن. {حتى إذا}: حزنوا حزناً عظيماً، و {ضاقتْ عليهم الأرضُ بما رَحُبَتْ}؛ أي: على سعتها ورحبها، {وضاقت عليهم أنفسُهُم}: التي هي أحبُّ إليهم من كلِّ شيءٍ، فضاق عليهم الفضاء الواسع والمحبوبُ الذي لم تجرِ العادة بالضيق منه، وذلك لا يكون إلا من أمرٍ مزعج بَلَغَ من الشدَّة والمشقَّة ما لا يمكن التعبيرُ عنه، وذلك لأنهم قدَّموا رضا الله ورضا رسوله على كلِّ شيءٍ. {وظنُّوا أن لا مَلْجَأ من الله إلا إليه}؛ أي: تيقَّنوا وعرفوا بحالهم أنه لا يُنْجي من الشدائد ويُلْجَأ إليه إلاَّ الله وحده لا شريك له، فانقطع تعلُّقهم بالمخلوقين، وتعلَّقوا بالله ربِّهم، وفرُّوا منه إليه، فمكثوا بهذه الشدَّة نحو خمسين ليلةً. {ثمَّ تاب عليهم}؛ أي: أذن في توبتهم ووفَّقهم لها، {لِيَتوبوا}؛ أي: لتقعَ منهم فيتوبَ الله عليهم. {إنَّ الله هو التوَّابُ}؛ أي: كثير التوبة والعفو والغفران عن الزلاَّت والنُّقصان ، {الرحيمُ}: وَصْفُهُ الرحمة العظيمة التي لا تزال تَنْزِلُ على العباد في كلِّ وقت وحينٍ، في جميع اللحظات ما تقوم به أمورُهم الدينيَّة والدنيويَّة. وفي هذه الآيات دليلٌ على أن توبة الله على العبد أجلُّ الغايات وأعلى النهايات؛ فإنَّ اللَّه جعلها نهاية خواصِّ عباده، وامتنَّ عليهم بها حين عملوا الأعمال التي يحبُّها ويرضاها. ومنها: لطف الله بهم، وتثبيتهم في إيمانهم عند الشدائد والنوازل المزعجة. ومنها: أنَّ العبادة الشاقَّة على النفس لها فضلٌ ومزيَّة ليست لغيرها، وكلَّما عظُمت المشقة؛ عظم الأجر. ومنها: أن توبة الله على عبده بحسب ندمِهِ وأسفِهِ الشديد، وأنَّ من لا يبالي بالذنب ولا يُحْرَجُ إذا فعله؛ فإنَّ توبته مدخولةٌ، وإنْ زَعَمَ أنَّها مقبولةٌ. ومنها: أنَّ علامة الخير وزوال الشدَّة إذا تعلَّق القلب بالله تعالى تعلُّقاً تامًّا وانقطع عن المخلوقين. ومنها: أنَّ من لطف الله بالثلاثة أنْ وَسَمَهم بوسم ليس بعارٍ عليهم، فقال: {خُلِّفوا}؛ إشارةً إلى أن المؤمنين خَلَّفوهم أو خُلِّفوا عن مَنْ بُتَّ في قَبول عذرِهم أو في ردِّه، وأنهم لم يكن تخلُّفهم رغبةً عن الخير، ولهذا لم يقلْ: تَخَلَّفوا. ومنها: أن الله تعالى منَّ عليهم بالصدق، ولهذا أمر بالاقتداء بهم، فقال:
AyatMeaning
[118] ﴿ وَّعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا﴾ ’’او ران تینوں پر بھی (اللہ مہربان ہوا) جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔‘‘ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان تین حضرات کی توبہ قبول کر لی جو اس غزوہ میں جہاد کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نہ نکل سکے تھے۔ وہ تھے کعب بن مالک اور ان کے ساتھی (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیعy) ان کا قصہ صحاح اور سنن میں مشہور و معروف ہے۔(صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب ﴿وعلی الثلاثۃ... الخ﴾ حدیث: 4677) ﴿ حَتّٰۤى اِذَا﴾ یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ غم زدہ ہوگئے ﴿ ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ﴾ ’’اور زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہو گئی‘‘ یعنی اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود ﴿ وَضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ﴾ ’’اور تنگ ہو گئیں ان پر ان کی جانیں ‘‘ جو کہ انھیں ہر چیز سے زیادہ محبوب تھیں ۔ پس کشادہ فضا ان کے لیے تنگ ہوگئی اور ہر محبوب چیز ان کے لیے تنگ ہوگئی جو عادۃً کبھی ان کے لیے تنگ نہ تھی۔ یہ صورت حال صرف اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی انتہائی گھبراہٹ والا معاملہ ہو جو شدت اور مشقت میں اس حد تک پہنچ گیا ہو جس کی تعبیر ممکن نہ ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ ﴿ وَظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ﴾ ’’اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف‘‘ یعنی انھیں یقین ہوگیا اور اپنے حال کے ذریعے سے ان کو معلوم ہوگیا کہ ان سختیوں سے نجات دینے والا اور جس کے پاس پناہ لی جائے اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی نہیں ، تب مخلوق کے ساتھ ان کا تعلق منقطع ہوگیا اور انھوں نے اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر اللہ ہی کے پاس پناہ لی۔ وہ پچاس راتوں تک اس شدت اور کیفیت میں مبتلا رہے۔ ﴿ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ﴾ ’’پھر مہربان ہوا ان پر‘‘ یعنی اللہ نے ان کو توبہ کی اجازت دے دی اور ان کو توبہ کی توفیق سے نواز دیا ﴿لِیَتُوْبُوْا﴾ ’’تاکہ وہ توبہ کریں ۔‘‘ تاکہ ان کی طرف سے توبہ واقع ہو اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ﴾ ’’بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے، بہت کثرت سے معاف کرتا ہے اور بہت کثرت سے لغزشوں اور نقائص کو بخش دیتا ہے۔ ﴿الرَّحِیْمُ﴾ عظیم رحمت اس کا وصف ہے جو ہر آن، ہر وقت اور ہر لحظہ اس کے بندوں پر نازل ہوتی رہتی ہے جس سے ان کے دنیاوی اور دینی امور سر انجام پاتے ہیں ۔ (۱) ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنا، جلیل ترین مقصد اور بلند ترین منزل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کو اپنے خاص بندوں کا مقام و منزل قرار دیا ہے۔ جب بندے ایسے اعمال کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی منزل سے نوازتا ہے۔ (۲) اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ان پر سایہ کناں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہلا دینے والے مصائب کے وقت ان کے ایمان میں ثابت قدمی اور استقامت عطا کرتا ہے۔ (۳) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس پر شاق گزرنے والی عبادت ایسی فضیلت کی حامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی۔ عبادت میں مشقت جتنی زیادہ ہوگی اجر اتنا ہی بڑا ہوگا۔ (۴) بندے کی اپنے گناہ پر ندامت اور تاسف کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی گناہ کی پروا نہیں کرتا اور گناہ کے ارتکاب پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتا تو اس کی توبہ عیب دار اور کھوکھلی ہے اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہے۔ (۵) جب قلب مخلوق سے کٹ کر کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہو جائے تو یہ بھلائی اور شدت (تنگی) کے زوال کی علامت ہے۔ (۶) ان تینوں اصحاب پر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان کو کسی ایسے وصف سے موصوف نہیں کیا جو ان کے لیے عار کا باعث ہو، چنانچہ فرمایا: ﴿خُلِّفُوْا ﴾ ’’جو پیچھے چھوڑ دیے گئے‘‘ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل ایمان ان کو پیچھے چھوڑ گئے تھے یا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو ان لوگوں سے پیچھے چھوڑ دیا گیا، جن کو ان کی معذرت کے قبول یا رد کے سلسلے میں علیحدہ کر دیا گیا تھا اور یہ کہ ان کا پیچھے رہ جانا بھلائی سے روگردانی کی بنا پر نہ تھا، اسی لیے ( تَخَلَّفُوا) کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔
Vocabulary
AyatSummary
[118
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List