Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 9
- SuraName
- تفسیر سورۂ توبہ
- SegmentID
- 563
- SegmentHeader
- AyatText
- {79} وهذا أيضاً من مخازي المنافقين، فكانوا قبَّحهم الله لا يدعون شيئاً من أمور الإسلام والمسلمين يرون لهم مقالاً؛ إلا قالوا وطعنوا بغياً وعدواناً، فلما حثَّ الله ورسوله على الصدقة؛ بادر المسلمون إلى ذلك، وبذلوا من أموالهم كل على حسب حاله، منهم المكثر ومنهم المقل، فيلمزون المكثر منهم بأنَّ قصدَه بنفقته الرياء والسمعة، وقالوا للمقلِّ الفقير: إنَّ الله غنيٌّ عن صدقة هذا، فأنزل الله تعالى: {الذين يَلْمِزون}؛ أي: يعيبون ويطعنون {المُطَّوِّعين من المؤمنين في الصدقات}: فيقولون: مراؤون قصدُهم الفخر والرياء {و} يلمزون {الذين لا يَجِدون إلا جُهْدَهم}: فيخرِجون ما استطاعوا ويقولون: الله غنيٌّ عن صدقاتهم، {فيسخرون منهم}، فقابلهم الله على صنيعهم بأن سَخِرَ منهم، {ولهم عذابٌ أليم}؛ فإنَّهم جمعوا في كلامهم هذا بين عدة محاذير: منها: تتبُّعهم لأحوال المؤمنين وحرصهم على أن يجدوا مقالاً يقولونه فيهم، والله يقول: {إنَّ الذين يحبُّون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذابٌ أليمٌ}. ومنها: طعنهم بالمؤمنين لأجل إيمانهم كفراً بالله تعالى وبغضاً للدين. ومنها: أن اللَّمز محرمٌ، بل هو من كبائر الذنوب في أمور الدنيا، وأما اللَّمز في أمر الطاعة؛ فأقبحُ وأقبح. ومنها: أنَّ من أطاع الله وتطوَّع بخَصْلةٍ من خصال الخير؛ فإنَّ الذي ينبغي إعانته وتنشيطه على عمله، وهؤلاء قصدوا تثبيطهم بما قالوا فيهم، وعابوهم عليه. ومنها: أنَّ حكمهم على من أنفق مالاً كثيراً بأنه مراءٍ غلطٌ فاحشٌ وحكم على الغيب ورجمٌ بالظن، وأيُّ شرٍّ أكبر من هذا؟! ومنها: أن قولهم لصاحب الصدقة القليلة: اللهُ غنيٌّ عن صدقة هذا! كلامٌ مقصوده باطلٌ؛ فإنَّ الله غنيٌ عن صدقة المتصدِّق بالقليل والكثير، بل وغني عن أهل السماوات والأرض، ولكنه تعالى أمر العباد بما هم مفتقرون إليه؛ فالله وإن كان غنيًّا عنه؛ فهم فقراء إليه؛ {فمن يعملْ مثقال ذرَّةٍ خيراً يره}، وفي هذا القول من التثبيط عن الخير ما هو ظاهرٌ بيّن، ولهذا كان جزاؤهم أن يسخر الله منهم، {ولهم عذابٌ أليمٌ}.
- AyatMeaning
- [79] یہ بھی منافقین کی رسوائی کا باعث بننے والی باتوں میں سے ہے ...اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے... وہ اسلام اور مسلمانوں کے امور میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس پر زبان طعن دراز کر سکتے ہوں تو وہ ظلم و تعدی سے کام لیتے ہوئے طعن و تشنیع کرنے سے باز نہ آتے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe نے اہل ایمان کو صدقات کی ترغیب دی تو مسلمانوں نے نہایت تیزی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور ان میں سے ہر امیر و غریب نے اپنے حسب حال اللہ کے راستے میں اپنا مال خرچ کیا۔ پس منافقین دولت مند مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کم حیثیت مسلمانوں سے کہتے ’’اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے...‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی ﴿ اَلَّذِیْنَ یَلْ٘مِزُوْنَ ﴾ ’’جو عیب جوئی اور طعن کرتے ہیں ‘‘ ﴿الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ ﴾ ’’ان مومنوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں (ان کے) صدقات میں ۔‘‘ پس کہتے ہیں کہ یہ ریاکار ہیں۔ صدقہ کرنے سے ان کا مقصد صرف ریاکاری اور فخر کا اظہار ہے۔ ﴿ وَ ﴾ ’’اور۔‘‘وہ ان لوگوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ﴿ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ ﴾ ’’جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے‘‘ پس وہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے راستے میں (تھوڑا سا) مال نکالتے ہیں ۔ ان کے بارے میں یہ منافقین کہتے ’’اللہ تعالیٰ ان کے صدقات سے بے نیاز ہے۔‘‘﴿ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ﴾ ’’اس طرح وہ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں ۔‘‘ ان کے تمسخر کے مقابلے میں ان کے ساتھ تمسخر کیا گیا ﴿ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١ٞ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾ ’’اللہ نے ان سے تمسخر کیا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘‘ کیونکہ انھوں نے اپنے اس کلام میں متعدد ایسے امور اکٹھے کر دیے ہیں جن سے بچنا ضروری تھا۔ (۱) وہ مسلمانوں کے احوال کی تلاش میں رہتے تھے انھیں یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی کوئی ایسی بات پائیں جس پر یہ اعتراض اور نکتہ چینی کر سکیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَ٘شِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (النور: 24؍19) ’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (۲) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے اہل ایمان پر ان کے ایمان کی وجہ سے زبان طعن دراز کرتے رہتے تھے۔ (۳) طعنہ زنی اور چغل خوری کرنا حرام ہے بلکہ دنیاوی امور میں یہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے اور نیکی کے کام میں طعنہ زنی تو سب سے بڑا گناہ ہے۔ (۴) جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے بارے میں مناسب یہ ہے کہ نیکی کے اس کام میں اس کی اعانت اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے مگر ان منافقین کا مقصد تو صرف اسے نیکی کے کاموں سے باز رکھنا اور اس کی عیب جوئی کرنا تھا۔ (۵) اللہ کے راستے میں مال کثیر خرچ کرنے والے کے بارے میں ان کا یہ فیصلہ کہ وہ ریاکار ہے سخت غلطی، غیب دانی کا دعویٰ اور اٹکل پچو ہے اور اس سے بڑی اور کون سی برائی ہو سکتی ہے؟ (۶) قلیل مقدار میں صدقہ کرنے والے کی بابت ان کا یہ کہنا ’’اللہ تعالیٰ اس صدقہ سے بے نیاز ہے۔‘‘ایک ایسا کلام ہے جس کا مقصود باطل ہے کیونکہ صدقہ خواہ قلیل ہو یا کثیر، اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے صدقہ سے مستغنی ہے بلکہ وہ زمین اور آسمان کے تمام رہنے والوں سے بے نیاز ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسے امور کا حکم دیا ہے جن کے وہ خود محتاج ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ.... اگرچہ ان سے بے نیاز ہے لیکن لوگ تو اس کے محتاج ہیں .... فرماتا ہے ﴿فَ٘مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 99؍7) ’’پس جو ذرہ بھر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا‘‘چنانچہ ان کے اس قول میں نیکی سے باز رہنے کی جو ترغیب ہے، وہ بالکل ظاہر اور بین ہے، لہٰذا ان کی جزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تمسخر کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [79]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF