Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 9
- SuraName
- تفسیر سورۂ توبہ
- SegmentID
- 544
- SegmentHeader
- AyatText
- {38} اعلم أنَّ كثيراً من هذه السورة الكريمة نزلت في غزوة تبوك، إذ ندب النبي - صلى الله عليه وسلم - المسلمين إلى غزو الروم، وكان الوقت حارًّا والزاد قليلاً والمعيشة عَسِرة ، فحصل من بعض المسلمين من التثاقل ما أوجب أن يعاتِبَهم الله تعالى عليه ويستنهِضَهم، فقال تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا}: ألا تعملون بمقتضى الإيمان ودواعي اليقين من المبادرة لأمر الله والمسارعة إلى رضاه وجهاد أعدائه والنصرة لدينكم؛ فما {لكم إذا قيلَ لكم انفِروا في سبيل الله اثَّاقَلْتُم إلى الأرض}؛ أي: تكاسلتم وملتم إلى الأرض والدَّعة والسكون فيها. {أرَضيتم بالحياة الدُّنيا من الآخرة}؛ أي: ما حالُكم إلاَّ حال مَن رضي بالدنيا وسعى لها ولم يبال بالآخرة؛ فكأنه ما آمن بها. {فما متاعُ الحياة الدنيا}: التي مالت بكم وقدَّمتموها على الآخرة {إلَّا قليلٌ}: أفليس قد جعل الله لكم عقولاً تزنون بها الأمور؟ وأيُّها أحقُّ بالإيثار؟! أفليست الدنيا من أولها إلى آخرها لا نسبة لها في الآخرة؟! فما مقدار عمر الإنسان القصير جدًّا من الدنيا حتى يجعله الغاية التي لا غاية وراءها فيجعلَ سعيَهُ وكدَّه وهمَّه وإرادته لا يتعدَّى الحياة الدُّنيا القصيرة المملوءة بالأكدار المشحونة بالأخطار؟! فبأيِّ رأي رأيتم إيثارها على الدار الآخرة، الجامعة لكلِّ نعيم، التي فيها ما تشتهيه الأنفس وتلذُّ الأعين وأنتم فيها خالدون؟! فوالله ما آثر الدُّنيا على الآخرة من وَقَرَ الإيمان في قلبه، ولا مَنْ جزل رأيه، ولا من عُدَّ من أولي الألباب.
- AyatMeaning
- [38] واضح رہے کہ اس سورۂ کریمہ کا اکثر حصہ غزوۂ تبوک میں نازل ہوا ہے، جب رسول اللہe نے رومیوں کے مقابلے میں جنگ کے لیے لوگوں کو بلایا۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، لوگوں کے پاس زادِ راہ بہت کم تھا اور ان کے معاشی حالات عسرت کا شکار تھے۔ اس کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں سستی آگئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کی موجب بنی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لیے اٹھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’اے ایمان والو‘‘! کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمھارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ﴾ ’’تمھیں کیا ہے کہ جب تمھیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو گرے جاتے ہو زمین پر‘‘ یعنی تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھ رہے ہو اور راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ ﴿ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰؔوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ﴾ ’’کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔‘‘ یعنی تمھارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ گویا آخرت پر وہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ﴿ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﴾ ’’پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا‘‘ جس کی طرف تم مائل ہو جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ﴿ اِلَّا قَلِیْلٌ ﴾ ’’مگر بہت تھوڑا‘‘ کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں عقل سے نہیں نوازا جس کے ذریعے سے تم تمام معاملات کو تولو کہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیے جانے کا مستحق ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا.... اول سے لے کر آخر تک.... آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں ؟ اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اسی کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہو اور انسان کی کوشش، اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔ تب کس بنا پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہوگا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے.... اللہ کی قسم! وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا ہے، جو صائب رائے رکھتا ہے اور جو عقل مندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [38]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF