Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 9
- SuraName
- تفسیر سورۂ توبہ
- SegmentID
- 542
- SegmentHeader
- AyatText
- {36} يقول تعالى: {إنَّ عدة الشهور عند الله}؛ أي: في قضاء الله وقدره {اثنا عشر شهراً}: وهي هذه الشهور المعروفة {في كتاب الله}؛ أي: في حكمه القدريِّ، {يوم خَلَقَ السموات والأرض}: وأجرى ليلها ونهارها، وقدَّر أوقاتها، فقسمها على هذه الشهور الاثني عشر شهراً. {منها أربعةٌ حُرُم}: وهي رجب الفرد وذو القعدة وذو الحجة والمحرم، وسميتْ حُرُماً لزيادة حرمتها وتحريم القتال فيها. {فلا تظلِموا فيهنَّ أنفسكم}: يُحتمل أن الضمير يعود إلى الاثني عشر شهراً، وأن الله تعالى بيَّن أنه جعلها مقادير للعباد، وأن تُعْمَرَ بطاعته، ويُشْكَرَ الله تعالى على منَّته بها، وتقييضها لمصالح العباد، فلْتَحْذروا من ظلم أنفسكم فيها. ويُحتمل أنَّ الضمير يعود إلى الأربعة الحرم، وأنَّ هذا نهي لهم عن الظُّلم فيها خصوصاً، مع النهي عن الظلم كلَّ وقت؛ لزيادة تحريمها وكون الظُّلم فيها أشدَّ منه في غيرها، ومن ذلك النهي عن القتال فيها على قول من قال: إن القتال في الأشهر الحرم لم يُنسخ تحريمهُ؛ عملاً بالنصوص العامة في تحريم القتال فيها، ومنهم من قال: إن تحريم القتال فيها منسوخ أخذاً بعموم نحو قوله: {وقاتلوا المشركينَ كافَّةً كما يقاتلونَكم كافَّةً}؛ أي: قاتلوا جميع أنواع المشركين والكافرين بربِّ العالمين، ولا تخصُّوا أحداً منهم بالقتال دون أحدٍ، بل اجعلوهم كلَّهم لكم أعداءً كما كانوا هم معكم كذلك قد اتَّخذوا أهل الإيمان أعداءً لهم لا يألونهم من الشرِّ شيئاً، ويحتمل أن {كافَّةً} حالٌ من الواو، فيكون معنى هذا: وقاتلوا جميعكم المشركين، فيكون فيها وجوب النفير على جميع المؤمنين، وقد نُسخت على هذا الاحتمال بقوله: {وما كان المؤمنون لِيَنفِروا كافة ... } الآية. {واعلموا أن الله مع المتقين}: بعونه ونصره وتأييده، فلتحرصوا على استعمال تقوى الله في سرِّكم وعلنكم والقيام بطاعته، خصوصاً عند قتال الكفار؛ فإنه في هذه الحال ربَّما ترك المؤمن العمل بالتقوى في معاملة الكفار الأعداء المحاربين.
- AyatMeaning
- [36] ﴿ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں ۔ ﴿ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا ﴾ ’’بارہ مہینے ہے‘‘ یہ وہی معروف مہینے ہیں ۔ ﴿ فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کی کتاب میں ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم قدری میں ۔ ﴿ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ﴾ ’’جس دن اس نے پیدا کیے تھے آسمان اور زمین‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیل و نہار جاری کیے، اس کے اوقات کی مقدار مقرر کی اور اس کو ان بارہ مہینوں میں تقسیم کیا۔ ﴿ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؔ﴾ ’’ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ‘‘ اور یہ ہیں رجب، ذیقعد، ذوالحج اور محرم... اور ان کے احترام کی وجہ سے ان کو حرام مہینوں سے موسوم کیا گیا ہے۔ نیز ان کو اس وجہ سے بھی حرام مہینے کہا گیا ہے کہ ان میں قتال کرنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ﴿فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’پس ان میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر بارہ مہینوں کی طرف لوٹتی ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ان مہینوں کو بندوں کے لیے وقت کی مقدار کے تعین کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ پس ان مہینوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے معمور رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر اس کا شکر ادا کیا جائے۔ نیز یہ کہ اس نے ان مہینوں کو اپنے بندوں (کے مصالح) کے لیے مقرر فرمایا۔ پس اپنے آپ پر ظلم کرنے سے بچو۔ اس میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ضمیر چار حرام مہینوں کی طرف لوٹتی ہو یعنی ان کے لیے ممانعت ہے کہ وہ خاص طور پر ان چار مہینوں میں ظلم کریں ۔ حالانکہ تمام اوقات میں ظلم کرنے کی ممانعت ہے لیکن چونکہ ان چار مہینوں کی حرمت زیادہ ہے اور ان مہینوں میں دوسرے مہینوں کی نسبت ظلم کے گناہ کی شدت بھی زیادہ ہے، اس لیے ان مہینوں میں ظلم کرنے سے بطور خاص منع کیا گیا۔ ان چار مہینوں میں ان علماء کے نزدیک، جو یہ کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ نہیں ، لڑائی کرنا ممنوع ہے۔ یہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم کے بارے میں عام نصوص پر عمل کرتے ہیں ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ان مہینوں میں قتال کی تحریم منسوخ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عمومیت پر عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ وَقَاتِلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً﴾ ’’اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں ۔‘‘ یعنی تمام قسم کے مشرکین اور رب العالمین کا انکار کرنے والوں سے لڑو اور لڑائی کے لیے کسی کو مخصوص نہ کرو بلکہ تمام مشرکین اور کفار کو اپنا دشمن سمجھو جیسا کہ تمھارے ساتھ ان کا رویہ ہے۔ وہ اہل ایمان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور شرارت سے کبھی نہیں چوکتے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ﴿ كَآفَّةً﴾ واؤ سے حال ہو، تب معنی یہ ہوگا کہ تم سب اکٹھے ہو کر مشرکین سے جنگ کرو، تب اس صورت میں تمام اہل ایمان پر جہاد کے لیے نکلنا فرض ہے۔ اس احتمال کے مطابق یہ آیت کریمہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً﴾ (التوبۃ: 9؍122) ’’اہل ایمان کے لیے ضروری نہ تھا کہ وہ سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے۔‘‘کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔ ﴿ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مدد، نصرت اور تائید کے ذریعے سے تقویٰ شعار لوگوں کے ساتھ ہے۔ پس تم اپنے ظاہر و باطن اور اطاعت الٰہی پر قائم رہنے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے حریص بنو۔ خاص طور پر کفار کے خلاف قتال کے وقت کیونکہ ایسی صورت حال میں ، جنگ میں شریک کفار دشمنوں کے معاملہ میں مومن سے تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [36]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF