Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 9
- SuraName
- تفسیر سورۂ توبہ
- SegmentID
- 539
- SegmentHeader
- AyatText
- {29} هذه الآية أمرٌ بقتال الكفار من اليهود والنصارى من {الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر}: إيماناً صحيحاً يصدِّقونه بأفعالهم وأعمالهم، {ولا يحرِّمون ما حرَّم الله}: فلا يتَّبعون شرعه في تحريم المحرمات، {ولا يَدينون دين الحقِّ}؛ أي: لا يدينون بالدين الصحيح، وإن زعموا أنهم على دين؛ فإنه دينُ غير الحق؛ لأنه إما دين مبدَّل وهو الذي لم يشرعه الله أصلاً، وإمَّا دينٌ منسوخٌ قد شرعه الله ثم غيَّره بشريعة محمد - صلى الله عليه وسلم -، فيبقى التمسُّك به بعد النسخ غير جائز. فأمَرَهُ بقتال هؤلاء وحثَّ على ذلك لأنَّهم يدعون إلى ما هم عليه، ويحصل الضرر الكثير منهم للناس، بسبب أنهم أهل كتاب. وغَيَّا ذلك القتال: {حتى يُعطوا الجزيةَ}؛ أي: المال الذي يكون جزاءً لترك المسلمين قتالهم وإقامتهم آمنين على أنفسهم وأموالهم بين أظهر المسلمين، يؤخذ منهم كلَّ عام كلٌّ على حسب حاله من غني وفقير ومتوسط؛ كما فعل ذلك أمير المؤمنين عمر بن الخطاب وغيره من أمراء المؤمنين. وقوله: {عن يدٍ}؛ أي: حتى يبذلوها في حال ذُلِّهم، وعدم اقتدارهم، ويعطوها بأيديهم، فلا يرسلون بها خادماً، ولا غيره، بل لا تُقبل إلاَّ من أيديهم. {وهم صاغرونَ}: فإذا كانوا بهذه الحال، وسألوا المسلمين أن يُقِرُّوهم بالجزية وهم تحت أحكام المسلمين وقهرهم، وحال الأمن من شرِّهم وفتنتهم، واستسلموا للشروط التي أجراها عليهم المسلمون، مما ينفي عزَّهم وتكبُّرَهم وتوجب ذلَّهم وصَغارهم؛ وجب على الإمام أو نائبه أن يعقدَها لهم، وإلاَّ؛ بأن لم يفوا ولم يعطوا الجزية عن يدٍ وهم صاغرون؛ لم يَجُزْ إقرارهم بالجزية، بل يقاتَلون حتى يُسْلِموا. واستدل بهذه الآية الجمهور الذين يقولون: لا تؤخذ الجزية إلاَّ من أهل الكتاب؛ لأنَّ الله لم يذكر أخذ الجزية إلاَّ منهم، وأمَّا غيرهم؛ فلم يذكر إلا قتالهم حتى يسلموا. وأُلْحِق بأهل الكتاب في أخذ الجزية وإقرارهم في ديار المسلمين المجوس؛ فإنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - أخذ الجزية من مجوس هَجَرَ، ثم أخذها أمير المؤمنين عمر من الفرس المجوس. وقيل: إن الجزية تُؤخذ من سائر الكفار من أهل الكتاب وغيرهم؛ لأنَّ هذه الآية نزلت بعد الفراغ من قتال العرب المشركين والشروع في قتال أهل الكتاب ونحوهم، فيكون هذا القيد إخباراً بالواقع لا مفهوم له، ويدلُّ على هذا أن المجوس أخذت منهم الجزية وليسوا أهل كتاب، ولأنَّه قد تواتر عن المسلمين من الصحابة ومَنْ بعدهم أنهم يَدْعون من يقاتلونهم إلى إحدى ثلاث: إمَّا الإسلام، أو أداء الجزية، أو السيف؛ من غير فرق بين كتابيٍّ وغيره.
- AyatMeaning
- [29] اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘ ایسا ایمان جس کی تصدیق ان کے افعال و اعمال کرتے ہوں ۔ ﴿ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ﴾ ’’اور نہ حرام سمجھتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے‘‘ یعنی محرمات کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع نہیں کرتے۔ ﴿ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ﴾ ’’اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں ۔‘‘اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باطل دین پر عمل پیرا ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دین میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہوگئی ہے اور یہ (تحریف شدہ) وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا یا وہ اس دین پر عمل پیرا ہیں جو منسوخ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمایا تھا، پھر محمد مصطفیe کی شریعت کے ذریعے سے منسوخ کر دیا۔ پس اس کے منسوخ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تمسک کرنا جائز نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اس سے لوگوں کو اس سبب سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور اس قتال و جہاد کی غایت و انتہا یہ مقرر کی ہے۔ ﴿ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ ﴾ ’’یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں ‘‘ یعنی وہ مال ادا کریں جو ان کے خلاف مسلمانوں کے قتال ترک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اپنے مال و متاع سمیت پر امن رہنے کا عوض ہے جو ہر سال ہر شخص سے اس کے حسب حال خواہ وہ امیر ہے یا غریب، وصول کیا جائے گا۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمرt اور دیگر سربراہان نے کیا تھا۔ ﴿عَنْ یَّدٍ ﴾ ’’اپنے ہاتھوں سے‘‘ یعنی مطیع ہو کر اور اقتدار چھوڑ کر یہ مالی عوض ادا کریں اور اپنے ہاتھ سے ادا کریں اور اس کی ادائیگی کے لیے خادم وغیرہ نہ بھیجیں بلکہ یہ جزیہ صرف انھی کے ہاتھ سے وصول کیا جائے۔ ﴿ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ اور وہ زیردست اور مطیع بن کر رہیں ۔ جب ان کا یہ حال ہو اور وہ مسلمانوں کو جزیہ ادا کرنا، مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے احکامات کے تحت آنا قبول کر لیں ، حالات ان کے شر اور فتنہ سے مامون ہوں ۔ وہ مسلمانوں کی ان شرائط کو تسلیم کر لیں جو ان پر عائد کی گئی ہوں جن سے ان کے اقتدار اور تکبر کی نفی ہوتی ہو اور جو ان کی زیردستی کی موجب ہوں .... تو مسلمانوں کے امام یا اس کے نائب پر واجب ہے کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ کر لے۔ اگر وہ معاہدے کو پورا نہ کریں اور زیردست رہ کر جزیہ ادا نہ کریں تو ان کو امان دینا جائز نہیں بلکہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے یہاں تک کہ اطاعت کر لیں ۔ اس آیت کریمہ سے جمہور اہل علم استدلال کرتے ہیں کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر کفار تو ان کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا ذکر ہے جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کر لیں ۔ جزیہ ادا کرنے اور اس کے عوض مسلمانوں کے شہروں میں رہنے کے احکام میں مجوس بھی شامل ہیں ۔ رسول اللہe نے علاقہ ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا، پھر امیر المومنین حضرت عمر فاروقt نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب تمام کفار سے جزیہ قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ آیت کریمہ مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے فراغت کے بعد اور اہل کتاب وغیرہ کے ساتھ قتال شروع ہونے پر نازل ہوئی ہے۔ تب یہ قید واقعہ کی خبر ہے اس کا مفہوم نہیں ۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ نیز صحابہ کرامy اور بعد میں آنے والے مسلمانوں سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جس قوم کے خلاف جنگ کرتے انھیں سب سے پہلے تین میں سے ایک چیز قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ (۱) اسلام قبول کرنا۔ (۲) جزیہ ادا کرنا۔ (۳) یا تلوار کا فیصلہ قبول کرنا... اور اس میں انھوں نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [29]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF