Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
50
SegmentHeader
AyatText
{114} أي: لا أحد أظلم وأشد جرماً ممن منع مساجد الله عن ذكر الله فيها وإقامة الصلاة وغيرها من [أنواع] الطاعات، {وسعى}؛ أي: اجتهد وبذل وسعه، {في خرابها}؛ الحسي والمعنوي، فالخراب الحسي هدمها وتخريبها وتقذيرها، والخراب المعنوي منع الذاكرين لاسم الله فيها، وهذا عام لكل من اتصف بهذه الصفة فيدخل في ذلك أصحاب الفيل وقريش حين صدوا رسول الله عنها عام الحديبية، والنصارى حين أخربوا بيت المقدس، وغيرهم من أنواع الظلمة الساعين في خرابها محادّة لله ومشاقة، فجازاهم الله بأن منعهم دخولها شرعاً وقدراً إلا خائفين ذليلين، فلما أخافوا عباد الله أخافهم الله، فالمشركون الذين صدوا رسوله لم يلبث رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا يسيراً حتى أذن الله له في فتح مكة ومنع المشركين من قربان بيته فقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}؛ وأصحاب الفيل قد ذكر الله ما جرى عليهم، والنصارى سلط الله عليهم المؤمنين فأجلوهم [عنه]، وهكذا كل من اتصف بوصفهم فلا بد أن يناله قسطه، وهذا من الآيات العظيمة أخبر بها الباري قبل وقوعها فوقعت كما أخبر، واستدل العلماء بالآية الكريمة على أنه لا يجوز تمكين الكفار من دخول المساجد {لهم في الدنيا خزي}؛ [أي]: فضيحة؛ كما تقدم {ولهم في الآخرة عذاب عظيم}؛ وإذا كان لا أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه، فلا أعظم إيماناً ممن سعى في عمارة المساجد بالعمارة الحسية والمعنوية؛ كما قال تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر}؛ بل قد أمر الله تعالى برفع بيوته وتعظيمها وتكريمها فقال تعالى: {في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه}. وللمساجد أحكام كثيرة يرجع حاصلها إلى مضمون هذه الآيات الكريمة.
AyatMeaning
[114] یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جس نے اللہ کی مساجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور نیکی اور اطاعت کے دیگر کاموں سے روکا ﴿ وَسَعٰى ﴾ یعنی جس نے پوری جدوجہد اور بھرپور کوشش کی ﴿ فِیْ خَرَابِهَا﴾ ’’ان کے ویران کرنے میں۔‘‘ اس سے مراد، حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے ویران کرنا ہے۔ حسی ویرانی کا مطلب ہے منہدم کرنا، اجاڑنا اور اس میں گندگی وغیرہ پھینکنا۔ معنوی ویرانی کا مطلب ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا ہے۔ اور یہ عام ہے، اس زمرے میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں۔ اس میں اصحاب فیل بھی شامل ہیں۔ قریش بھی شامل ہیں، جب انھوں نے حدیبیہ کے سال رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اور اس گروہ میں وہ نصرانی اور اہل ظلم بھی شامل ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے پوری کوشش سے بیت المقدس کو ویران کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے کرتوتوں کی یہ سزا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرعاً اور تقدیری طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے منع کر دیا سوائے اس کے کہ وہ ڈرتے ہوئے ذلت و انکسار کے ساتھ داخل ہوں۔ پس جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف زدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر خوف مسلط کر دیا۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہeکو مکہ مکرمہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ (التوبہ : 9؍28) ’’اے ایمان والو! مشرکین تو ناپاک ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔‘‘ اصحاب فیل کا جو حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) اس کا ذکر فرمایا ہے۔ نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مسلط فرمایا اور انھوں نے ان کو جلاوطن کر دیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ان جیسی صفات رکھتا ہے وہ اس سزا سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گا۔ یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے واقع ہونے سے پہلے ہی باری تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا اور یہ اسی طرح واقع ہوئیں جس طرح اس نے خبر دی تھی۔ اس آیت کریمہ سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ فرمایا: ﴿ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾ یعنی ان کے لیے دنیا میں فضیحت ہے ﴿ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ جب اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنا سب سے بڑا ظلم ہے تو اسی طرح مساجد کو حسی اور معنوی اعتبار سے آباد کرنے والے سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (التوبہ : 9؍18) ’’اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے گھروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَ٘عَ وَیُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ﴾ (النور:24؍36) ’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور وہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔‘‘ مساجد سے متعلق بہت سے احکام ہیں جن کا خلاصہ ان آیات کریمہ کے اندر مضمر ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[114
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List