Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
8
SuraName
تفسیر سورۂ انفال
SegmentID
509
SegmentHeader
AyatText
{41} يقول تعالى: {واعلموا أنَّما غنمتُم من شيءٍ}؛ أي: أخذتم من مال الكفار قهراً بحقٍّ قليلاً كان أو كثيراً، {فأنَّ لله خُمُسَه}؛ أي: وباقيه لكم أيها الغانمون؛ لأنه أضاف الغنيمة إليهم، وأخرج منها خمسها، فدلَّ على أن الباقي لهم، يُقسم على ما قسمه رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: للراجل سهمٌ، وللفارس سهمان لفرسه وسهم له، وأما هذا الخمس؛ فيقسم خمسة أسهم: سهمٌ لله ولرسوله يُصْرَف في مصالح المسلمين العامة من غير تعيين لمصلحة؛ لأنَّ الله جعله له ولرسوله، والله ورسوله غنيَّان عنه، فعُلِمَ أنه لعباد الله؛ فإذا لم يعيِّن الله له مصرفاً؛ دلَّ على أن مَصْرِفَه للمصالح العامة. والخمس الثاني: لذي القربى، وهم قرابة النبي - صلى الله عليه وسلم - من بني هاشم وبني المطلب، وأضافه الله إلى القرابة دليلاً على أنَّ العلة فيه مجرَّد القرابة، فيستوي فيه غنيُّهم وفقيرهم ذكرهم وأنثاهم. والخمس الثالث: لليتامى، وهم الذين فقدت آباؤهم وهم صغارٌ، جعل الله لهم خُمُسَ الخمس رحمةً بهم، حيث كانوا عاجزين عن القيام بمصالحهم، وقد فُقِدَ من يقوم بمصالحهم. والخمس الرابع: للمساكين؛ أي: المحتاجين الفقراء من صغار وكبار ذكور وإناث. والخمس الخامس: لابن السبيل، و [هو] الغريب المنقطَعُ به في غير بلده، وبعض المفسرين يقول: إن خمس الغنيمة لا يخرُجُ عن هذه الأصناف، ولا يلزم أن يكونوا فيه على السواء، بل ذلك تَبَعٌ للمصلحة، وهذا هو الأولى. وجعل الله أداء الخُمُس على وجهه شرطاً للإيمان، فقال: {إن كُنتم آمنتُم بالله وما أنزلْنا على عبدِنا يوم الفرقان}: وهو يوم بدرٍ، الذي فرَّق الله به بين الحقِّ والباطل، وأظهر الحقَّ وأبطل الباطل. {يوم التقى الجمعانِ}: جمع المسلمين وجمع الكافرين؛ أي: إن كان إيمانُكم بالله وبالحقِّ الذي أنزله الله على رسوله يوم الفرقان الذي حصل فيه من الآيات والبراهين ما دلَّ على أن ما جاء به هو الحقُّ. {والله على كلِّ شيء قدير}: لا يغالبه أحدٌ إلا غلبه.
AyatMeaning
[41] ﴿وَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ﴾’’اور جان رکھو کہ تم مال غنیمت سے جو کچھ حاصل کرو۔‘‘ یعنی کفار کا جو مال تم فتح یاب ہو کر حق کے ساتھ حاصل کرو، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ﴿ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ﴾ ’’تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔‘‘اور باقی تمھارے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غنیمت کی اضافت ان کی طرف کی ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ نکال دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پانچواں حصہ نکال کر باقی ان میں اسی طرح تقسیم کیا جائے گا جس طرح رسول اللہe نے تقسیم فرمایا تھا...، یعنی پیادے کے لیے ایک حصہ اور سوار کے لیے دو حصے، ایک حصہ خود اس کے لیے اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کے لیے(لیکن حدیث سے سوار کے لیے تین حصے ثابت ہوتے ہیں‘ دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ خود اس کے لیے۔ ) ’اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَھْمَیْنِ وَلِصَاحِبِہٖ سَھْمًا‘(صحیح البخاري، الجہاد والسیر، باب سھام الفرس، حدیث: 2863، 4228) (ص۔ی) رہا خمس تو اس کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے، ان میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولe کے لیے مختص ہے جو کسی تعین کے بغیر عام مسلمانوں کے مصالح پر خرچ کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اللہ اور رسولe کا حصہ قرار دیا ہے اور اللہ اور اس کا رسولe اس سے بےنیاز ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حصہ درحقیقت بندگان الٰہی کے لیے ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف متعین نہیں فرمائے اس لیے واضح ہوا کہ اس کو مصالح عامہ میں صرف کیا جائے گا۔ خمس کا دوسرا حصہ، ذو القربیٰ کے لیے ہے اور یہاں ذو القربیٰ سے مراد رسول اللہe کے قرابت دار یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ۔ ذو القربیٰ کی طرف اس کی اضافت اس امر کی دلیل ہے کہ اس حکم کی علت مجرد قرابت ہے جس میں ان کے مال دار اور محتاج، مرد اور عورتیں سب شامل ہیں ۔ خمس کا تیسرا حصہ، یتیموں کے لیے ہے جن کے باپ فوت ہو چکے ہیں اور خود وہ بہت کمسن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کی بنا پر ان کے لیے خمس کا پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے کیونکہ وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کسی ایسی ہستی سے بھی محروم ہیں جو ان کے مصالح کا انتظام کرے۔ خمس کا چوتھا حصہ مساکین، یعنی چھوٹوں ، بڑوں ، مردوں اور عورتوں میں سے محتاج اور تنگ دستوں کے لیے ہے۔ خمس کا آخری حصہ مسافروں کی بہبود کے لیے ہے۔ (اِبْنُ السَّبِیل) سے مراد وہ غریب الوطن شخص ہے جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گیا ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ان مذکورہ مصارف سے باہر خرچ نہ کیا جائے، البتہ یہ لازم نہیں کہ ان اصناف مذکورہ میں برابر برابر تقسیم کیا جائے بلکہ مصالح کے مطابق ان کے درمیان اس مال کو تقسیم کیا جائے گا .... یہی رائے زیادہ قرین صواب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خمس کو اس طریقے سے خرچ کرنا ایمان کی شرط قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْ٘فُرْقَانِ ﴾ ’’اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر فیصلے کے دن‘‘ (یوم الفرقان) سے مراد یوم بدر ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق اور باطل میں فیصلہ کیا۔ حق کو غالب کیا اور باطل کا بطلان ظاہر کیا۔ ﴿یَوْمَ الْ٘تَ٘قَى الْ٘جَمْعٰنِ﴾ ’’جس دن بھڑ گئیں دونوں فوجیں‘‘ یعنی مسلمانوں کے گروہ اور کفار کے گروہ کی مڈبھیڑ ہوئی... یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور اس حق پر ایمان رکھتے ہو جو اس نے اپنے رسولe پر بدر کے روز نازل فرمایا، جس سے ایسے دلائل اور براہین حاصل ہوئے جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہe جو کچھ لائے ہیں ، وہ حق ہے ﴿ وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾’’اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ کا مقابلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی غالب آتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[41]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List