Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
8
SuraName
تفسیر سورۂ انفال
SegmentID
496
SegmentHeader
AyatText
{16} {ومَن يُوَلِّهِم يومئذٍ دُبُرَهُ إلا متحرِّفاً لقتال أو متحيِّزاً إلى فئةٍ فقد باء}؛ أي: رجع {بغضبٍ من الله ومأواه}؛ أي: مقره {جهنَّم وبئس المصير}. وهذا يدلُّ على أن الفرار من الزحف من غير عذرٍ من أكبر الكبائر؛ كما وردت بذلك الأحاديث الصحيحة ، وكما نصَّ هنا على وعيده بهذا الوعيد الشديد. ومفهوم الآية أن المتحرِّف للقتال ـ وهو الذي ينحرفُ من جهة إلى أخرى ليكون أمكن له في القتال وأنكى لعدوِّه ـ فإنه لا بأس بذلك؛ لأنه لم يولِّ دُبُرَهُ فارًّا، وإنما ولَّى دُبُره ليستعلي على عدوِّه أو يأتيه من محلٍّ يصيب فيه غِرَّته أو ليخدِعَه بذلك أو غير ذلك من مقاصد المحاربين. وأن المتحيِّز إلى فئةٍ تمنعه وتعينه على قتال الكفار؛ فإنَّ ذلك جائزٌ؛ فإن كانت الفئة في العسكر؛ فالأمر في هذا واضح، وإن كانت الفئة في غير محلِّ المعركة؛ كانهزام المسلمين بين يدي الكافرين والتجائهم إلى بلد من بلدان المسلمين أو إلى عسكرٍ آخر من عسكر المسلمين؛ فقد ورد من آثار الصحابة ما يدلُّ على أنَّ هذا جائزٌ، ولعلَّ هذا يقيَّدُ بما إذا ظنَّ المسلمون أنَّ الانهزام أحمدُ عاقبة وأبقى عليهم، أما إذا ظنُّوا غلبتهم للكفار في ثباتهم لقتالهم؛ فيبعد في هذه الحال أن تكون من الأحوال المرخَّص فيها؛ لأنه على هذا لا يتصوَّر الفرار المنهيُّ عنه. وهذه الآية مطلقةٌ، وسيأتي في آخر السورة تقييدها بالعدد.
AyatMeaning
[16] ﴿ وَمَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَؔ ﴾ ’’اور جو کوئی پیٹھ پھیرے ان سے اس دن مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جا ملتا ہو فوج میں تو پھرا وہ‘‘ یعنی وہ لوٹا ﴿ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ ﴾ ’’اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانا‘‘ ﴿ جَهَنَّمُ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ ’’جہنم ہے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے‘‘ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی عذر کے بغیر، میدان جنگ سے فرار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے اور جیسا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرار ہونے والے کے لیے سخت وعید سنائی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جنگی چال کے طور پر میدان جنگ سے ہٹنے میں ، یعنی میدان جنگ میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر لڑنا تاکہ اس جنگی چال میں دشمن کو زک پہنچا سکے، کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ میدان جنگ سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا بلکہ اس نے دشمن پر غالب آنے کے لیے ایسا کیا ہے یا اس نے کسی پہلو سے دشمن پر حملہ کرنے کے لیے یا دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے یہ چال چلی ہے یا دیگر جنگی مقاصد کے لیے ایسا کیا ہے۔ اسی طرح کفار کے خلاف کمک کے طور پر ایک جماعت سے علیحدہ ہو کر دوسری جماعت میں جا کر ملنا بھی جائز ہے۔ اگر لشکر کا وہ گروہ جس کے ساتھ یہ گروہ جا کر ملا ہے، میدان جنگ میں موجود ہے تو ایسا کرنے کا جواز بالکل واضح ہے اور اگر وہ گروہ مقام معرکہ کی بجائے کسی اور مقام پر ہے ، مثلاً: مسلمانوں کا کفار کے مقابلے سے کسی ایک شہر سے پسپا ہو کر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا یا ایک میدان جنگ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ دشمن پر حملہ آور ہونا تو اس بارے میں صحابہ کرامؓ سے جو آراء منقول ہوئی ہیں وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں ۔ شاید پسپائی اس شرط سے مشروط ہے کہ مسلمان سمجھتے ہوں کہ پسپائی انجام کار ان کے لیے بہتر اور دشمن کے مقابلے میں زیادہ مفید ہو اور اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میدان جنگ میں جمے رہنے سے کفار پر ان کو غلبہ حاصل ہو جائے گا تو اس صورت حال میں یہ بعید ہے کہ پسپائی کا جواز ہو کیونکہ تب میدان جنگ سے فرار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے جس سے روکا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ مطلق ہے۔ (یعنی فرار کی ہر صورت ممنوع ہے) البتہ سورت کے آخر میں اس کو تعداد کے ساتھ مشروط کرنے کا بیان ہے۔ (دیکھیے آیت نمبر ۶۶ کی تفسیر)
Vocabulary
AyatSummary
[16]
Conclusions
LangCode
ur
TextType

Edit | Back to List