Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 2
- SegmentHeader
- AyatText
- {3} {الذين يؤمنون بالغيب} حقيقة الإيمان هو التصديق التام بما أخبرت به الرسل، المتضمن لانقياد الجوارح، وليس الشأن في الإيمان بالأشياء المشاهدة بالحسِّ، فإنه لا يتميز بها المسلم من الكافر، إنما الشأنُ في الإيمان بالغيب الذي لم نره ولم نشاهده، وإنما نؤمن به لخبر الله وخبر رسوله. فهذا الإيمان الذي يميز به المسلم من الكافر؛ لأنه تصديق مجرد لله ورسله، فالمؤمن يؤمن بكل ما أخبر الله به، أو أخبر به رسوله سواء شاهده أو لم يشاهده، وسواء فهمه وعقله، أو لم يهتدِ إليه عقله وفهمه، بخلاف الزنادقة المكذبين بالأمور الغيبية لأن عقولهم القاصرة المقصرة لم تهتدِ إليها فكذبوا بما لم يحيطوا بعلمه؛ ففسدت عقولهم، ومرجت أحلامهم؛ وزكت عقول المؤمنين المصدقين المهتدين بهدى الله. ويدخل في الإيمان بالغيب الإيمان بجميع ما أخبر الله به من الغيوب الماضية والمستقبلة وأحوال الآخرة وحقائق أوصاف الله وكيفيتها وما أخبرت به الرسل من ذلك، فيؤمنون بصفات الله ووجودها، ويتيقنونها وإن لم يفهموا كيفيتها. ثم قال: {ويقيمون الصلاة} لم يقل: يفعلون الصلاة؛ أو يأتون بالصلاة لأنه لا يكفي فيها مجرد الإتيان بصورتها الظاهرة، فإقامة الصلاة، إقامتها ظاهراً، بإتمام أركانها وواجباتها وشروطها، وإقامتها باطناً ، بإقامة روحها وهو حضور القلب فيها وتدبر ما يقول ويفعله منها، فهذه الصلاة هي التي قال الله فيها: {إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر} وهي التي يترتب عليها الثواب، فلا ثواب للعبد من صلاته إلا ما عقل منها، ويدخل في الصلاة فرائضها ونوافلها. ثم قال: {ومما رزقناهم ينفقون} يدخل فيه النفقات الواجبة؛ كالزكاة، والنفقة على الزوجات والأقارب والمماليك ونحو ذلك، والنفقات المستحبة بجميع طرق الخير، ولم يذكر المنفَق عليه لكثرة أسبابه وتنوع أهله، ولأن النفقة من حيث هي قربة إلى الله، وأتى «بِمِن» الدالة على التبعيض؛ لينبههم أنه لم يرد منهم إلا جزءاً يسيراً من أموالهم غير ضار لهم، ولا مثقل بل ينتفعون هم بإنفاقه، وينتفع به إخوانهم، وفي قوله: {رزقناهم} إشارة إلى أن هذه الأموال التي بين أيديكم ليست حاصلة بقوتكم وملككم، وإنما هي رزق الله الذي خوّلكم وأنعم به عليكم، فكما أنعم عليكم وفضلكم على كثير من عباده فاشكروه بإخراج بعض ما أنعم به عليكم، وواسوا إخوانكم المعدمين. وكثيراً ما يجمع تعالى بين الصلاة والزكاة في القرآن؛ لأن الصلاة متضمنة للإخلاص للمعبود، والزكاة والنفقة متضمنة للإحسان على عبيده؛ فعنوان سعادة العبد إخلاصه للمعبود وسعيه في نفع الخلق، كما أن عنوان شقاوة العبد عدم هذين الأمرين منه فلا إخلاص ولا إحسان.
- AyatMeaning
- [3] ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ ’’وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں‘‘ حقیقت ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جوارح کی اطاعت کومتضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں۔محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی ہو۔ زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انھوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا۔ اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہ نما بنا لیا۔ ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی،مستقبل، احوال آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایت یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ ﴿وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ﴾ ’’وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔‘‘ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیں یا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت و ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃ یہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اس قول و فعل میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت 29؍45) ’’بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔‘‘ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندۂ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ ’’اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں‘‘ اس میں تمام نفقات واجبہ، مثلاً زکاۃ ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہیے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں۔ خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں (من) تبعیض کے لیے ہے اور یہ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لیے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس انفاق سے خود انھیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمھارے قبضے میں ہے تمھیں تمھاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمھیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نےتمھیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکاۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاصکو متضمن ہے اور زکاۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندۂ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لیے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [3]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF