Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
6
SuraName
تفسیر سورۂ انعام
SegmentID
443
SegmentHeader
AyatText
{158} يقول تعالى: هل ينظر هؤلاء الذين استمر ظلمُهُم وعنادهم، {إلَّا أن يأتِيَهم}؛ مقدمات العذاب ومقدمات الآخرة؛ بأن تأتيهم {الملائكة} لقبض أرواحهم؛ فإنهم إذا وصلوا إلى تلك الحال؛ لم ينفعهم الإيمان ولا صالح الأعمال، {أو يأتي ربُّك}: لفصل القضاء بين العباد ومجازاة المحسنين والمسيئين {أو يأتي بعض آيات ربك}: الدالَّة على قرب الساعة. {يوم يأتي بعضُ آيات ربِّك}: الخارقة للعادة، التي يعلم بها أن الساعة قد دنت وأن القيامة قد اقتربت. {لا ينفعُ نفساً إيمانُها لم تكنْ آمنتْ من قبلُ أو كسبتْ في إيمانها خيراً}؛ أي: إذا وجد بعض آيات الله؛ لم ينفع الكافرَ إيمانُه إنْ آمنَ ولا المؤمنَ المقصرَ أن يزدادَ خيرُهُ بعد ذلك، بل ينفعه ما كان معه من الإيمان قبل ذلك، وما كان له من الخير الموجود قبل أن يأتي بعضُ الآيات. والحكمة في هذا ظاهرة؛ فإنه إنَّما كان الإيمان ينفع إذا كان إيماناً بالغيب وكان اختياراً من العبد. فأما إذا وجدت الآيات؛ صار الأمر شهادةً، ولم يبق للإيمان فائدةٌ؛ لأنه يشبه الإيمان الضروري؛ كإيمان الغريق والحريق ونحوهما ممَّن إذا رأى الموت أقلع عمَّا هو فيه؛ كما قال تعالى: {فلمَّا رأوا بأسنا قالوا آمنَّا بالله وحدَه وكَفَرْنا بما كنا به مشركينَ. فلم يَكُ ينفعُهم إيمانُهم لما رأوا بأسنا سُنَّةَ اللَّهِ التي قد خلتْ في عبادِهِ} وقد تكاثرت الأحاديث الصحيحة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنَّ المرادَ ببعض آيات الله طلوعُ الشمس من مغربها، وأنَّ الناس إذا رأوْها؛ آمنوا، فلم ينفعْهم إيمانُهم، ويغلقُ حينئذٍ باب التوبة. ولمَّا كان هذا وعيداً للمكذِّبين بالرسول - صلى الله عليه وسلم - مُنْتَظَراً وهم ينتظرون بالنبي - صلى الله عليه وسلم - وأتباعه قوارعَ الدهر ومصائب الأمور؛ قال: {قل انتَظِروا إنَّا منتَظِرون}: فستعلمون أيُّنا أحقُّ بالأمن. وفي هذه الآية دليل لمذهب أهل السنة والجماعة في إثبات الأفعال الاختيارية لله تعالى؛ كالاستواء والنزول والإتيان لله تبارك وتعالى من غير تشبيه له بصفات المخلوقين، وفي الكتاب والسنة من هذا شيءٌ كثير. وفيه أن من جملة أشراط الساعة طلوعَ الشمس من مغربها. وأنَّ الله تعالى حكيمٌ قد جرت عادته وسنَّته أن الإيمان إنما ينفع إذا كان اختياريًّا لا اضطراريًّا كما تقدَّم، وأن الإنسان يكتسب الخير بإيمانه؛ فالطاعة والبرُّ والتقوى إنما تنفع وتنمو إذا كان مع العبد إيمانٌ، فإذا خلا القلب من الإيمان؛ لم ينفعْه شيءٌ من ذلك.
AyatMeaning
[158] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو اپنے ظلم و عناد پر جمے ہوئے ہیں ، اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ﴿ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ ’’کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔‘‘ یعنی آخرت اور عذاب کے مقدمات کی صورت میں ان کے سامنے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آ حاضر ہوں ۔ کیونکہ جب وہ اس حالت کو پہنچ جائیں گے تو اس وقت ایمان اور اعمال صالحہ ان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے۔ ﴿اَوْ یَ٘اْتِیَ رَبُّكَ ﴾ ’’یا خود تمھارا رب آئے۔‘‘ یعنی تمھارا رب بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے، نیکوکاروں اور بدکاروں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لیے آجائے ﴿ اَوْ یَ٘اْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ ﴾ ’’یا تمھارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں ‘‘ جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہوں ﴿ یَوْمَ یَ٘اْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ ﴾ ’’جس دن تمھارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں گی‘‘ یعنی خارق عادت معجزات جن سے یہ معلوم ہو کہ قیامت کی گھڑی قریب آن لگی ہے اور بہت قریب پہنچ گئی ہے ﴿ لَا یَنْفَ٘عُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُ٘نْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا ﴾ ’’تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کیے ہوں گے۔‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں آموجود ہوں گی تو اس کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی فائدہ دے گا نہ کوتاہی کے شکار مومن کے اعمال میں اضافہ اس کے کسی کام آئے گا بلکہ صرف وہی ایمان کی پونجی اس کے کام آئے گی جو تھوڑی بہت اس کے دامن میں ہوگی اورصرف وہی نیک اعمال اس کو فائدہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں آجانے سے قبل اس نے کیے ہوں گے۔ اس میں ظاہری حکمت یہ ہے کہ ایمان صرف وہی فائدہ دیتا ہے جو بالغیب ہو اور بندہ اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لایا ہو۔ لیکن جب اللہ کی نشانیاں آجائیں اور معاملہ غیب سے شہادت میں منتقل ہو جائے تو ایمان لانے میں کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ کیونکہ یہ جبری ایمان کے مشابہ ہے ، مثلاً: ڈوبتے ہوئے یا جلتے ہوئے شخص وغیرہ کا ایمان لانا، یعنی وہ شخص جب موت کا چہرہ دیکھ لیتا ہے تو اپنی بداعمالیوں کو ختم کر دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَؔكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ۰۰ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَ٘اْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ ﴾ (المومن: 40؍84،85) ’’پس جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جن کو ہم اللہ کا شریک بنایا کرتے تھے۔ مگر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔‘‘ بہت سی صحیح احادیث میں رسول اللہe سے مروی ہے کہ یہاں ’’اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیوں ‘‘ سے مراد ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، لوگ جب سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے تو جھٹ ایمان لے آئیں گے مگر ان کا ایمان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا اور اس وقت توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، کتاب الرقاق، حدیث: 6506) چونکہ یہ آیت کریمہ رسول اللہe کے جھٹلانے والوں کے لیے وعید ہے۔ آپe ان نشانیوں کے ظہور کے منتظر ہیں اور کفار بھی منتظر ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُ٘لِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْ٘تَظِرُوْنَ ﴾ ’’کہہ دیجیے، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں ‘‘ پس عنقریب تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کون امن کا مستحق ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات ہے ، مثلاً: استواء علی العرش، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور اس کا آنا، مخلوق کی صفات کے ساتھ کسی تشبیہ کے بغیر۔ اور اس اعتبار سے یہ اہل سنت والجماعت کے مذہب کی دلیل ہے اور اس موضوع پر کتاب و سنت میں بہت سا مواد موجود ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کی جملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکمت والا ہے کائنات میں اس کی یہ سنت و عادت جاری و ساری ہے کہ ایمان صرف اسی وقت فائدہ دیتا ہے جبکہ وہ اختیاری ہو اضطراری نہ ہو۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ نیز یہ کہ انسان کا اکتساب خیر ایمان ہی کے ساتھ فائدہ مند ہے نیکی، تقویٰ وغیرہ اسی وقت فائدہ دیتے ہیں اور نشوونما پاتے ہیں جب بندے کے دامن میں سرمایہ ایمان بھی ہو۔ جب قلب ایمان سے خالی ہو تو بندے کو کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی۔
Vocabulary
AyatSummary
[158
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List