Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 6
- SuraName
- تفسیر سورۂ انعام
- SegmentID
- 441
- SegmentHeader
- AyatText
- {152} {ولا تقربوا مال اليتيم}: بأكل أو معاوضة على وجه المحاباة لأنفسكم أو أخذ من غير سبب، {إلا بالتي هي أحسنُ}؛ أي: إلاَّ بالحال التي تصلُحُ بها أموالهم وينتفعون بها، فدل هذا على أنه لا يجوز قربانها والتصرُّف بها على وجه يضرُّ اليتامى أو على وجه لا مضرَّة فيه ولا مصلحة. {حتى يبلغَ}: اليتيم {أشدَّه}؛ أي: حتى يبلغ ويرشد ويعرف التصرف؛ فإذا بلغ أشُدَّه؛ أعطي حينئذ ماله، وتصرف فيه على نظره. وفي هذا دلالة على أن اليتيم قبل بلوغ الأشدِّ محجورٌ عليه، وأن وليَّه يتصرَّف في ماله بالأحظ، وأنَّ هذا الحجر ينتهي ببلوغ الأشدِّ. {وأوفوا الكيلَ والميزان بالقسْط}؛ أي: بالعدل والوفاء التامِّ؛ فإذا اجتهدتم في ذلك؛ فلا {نُكَلِّفُ نفساً إلَّا وُسْعَها}؛ أي بقدر ما تسعه ولا تضيق عنه؛ فمن حرص على الإيفاء في الكيل والوزن، ثم حصل منه تقصيرٌ؛ لم يفرِّط فيه ولم يعلَمْه؛ فإن الله غفور رحيم. وبهذه الآية [ونحوها] استدل الأصوليون بأن الله لا يكلِّف أحداً ما لا يطيق، وعلى أنَّ من اتَّقى الله فيما أمر وفَعَلَ ما يمكِنُهُ من ذلك؛ فلا حرج عليه فيما سوى ذلك. {وإذا قلتُم}: قولاً تحكمون به بين الناس، وتفصلون بينهم الخطاب، وتتكلَّمون به على المقالات والأحوال، {فاعدِلوا}: في قولكم بمراعاة الصدق فيمن تحبُّون ومَنْ تكرهون والإنصافِ وعدم كتمان ما يلزمُ بيانُهُ؛ فإنَّ الميل على من تكره بالكلام فيه أو في مقالته من الظلم المحرم، بل إذا تكلَّم العالم على مقالات أهل البدع؛ فالواجبُ عليه أن يعطي كلَّ ذي حقٍّ حقَّه وأن يبيِّن ما فيها من الحقِّ والباطل، ويعتبرَ قربَها من الحقِّ وبعدها منه، وذكر الفقهاء أنَّ القاضي يجب عليه العدلُ بين الخصمين في لحظِهِ ولفظِهِ. {وبعهد الله أوفوا}: وهذا يشملُ العهد الذي عاهده عليه العباد؛ من القيام بحقوقه والوفاء بها، ومن العهد الذي يقع التعاهد به بين الخلق؛ فالجميع يجب الوفاءُ به، ويحرُم نقضُه والإخلال به. {ذلكم}: الأحكام المذكورة، {وصَّاكُم} [الله] {به لعلَّكم تَذَكَّرونَ}: ما بيَّنه لكم من الأحكام، وتقومون بوصية الله لكم حقَّ القيام، وتعرفون ما فيها من الحِكم والأحكام.
- AyatMeaning
- [152] ﴿ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ ﴾ ’’اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے‘‘ یعنی مال کھانے کے لیے یا اپنے لیے معاوضہ بنانے یا بغیر کسی سبب کے مال لینے کے لیے۔ ﴿ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ ’’مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔‘‘ یعنی البتہ ایسے طریقے سے ان کے مال کے قریب جاؤ جس سے ان کے مال کی اصلاح ہو اور وہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے یتیموں کے مال کے قریب جانا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں جس سے یتیموں کو نقصان پہنچتا ہو۔ اور اس طریقے سے بھی ان کے مال کے قریب جانا جائز نہیں جس میں کوئی نقصان تو نہ ہو البتہ اس میں کوئی مصلحت بھی نہ ہو۔ ﴿ حَتّٰى یَبْلُ٘غَ اَشُدَّهٗ﴾ ’’حتیٰ کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘ یعنی یہاں تک کہ یتیم بالغ اور سمجھ دار ہو جائے اور اسے مال میں تصرف کرنے کی معرفت حاصل ہو جائے اور جب وہ سمجھ دار اور بالغ ہو جائے تو اس وقت مال اس کے حوالے کیا جائے اور وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق اس مال میں تصرف کرے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یتیم بالغ ہونے سے قبل اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا۔ اس کے سرپرست کو مال میں احسن طریقے سے تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مال کے تصرف پر یہ پابندی یتیم کے بالغ ہونے پر ختم ہو جائے گی۔ ﴿ وَاَوْفُوا الْكَ٘ـیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ﴾ ’’نہایت عدل و انصاف سے ناپ تول کو پورا کرو‘‘ یعنی جب تم انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں جدوجہد کرو گے تو ﴿لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ ’’ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔‘‘ یعنی ہم اس کی مقدرت کے مطابق اسے مکلف بناتے ہیں اور ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتے جو اس کے بس سے باہر ہو، پس جو کوئی ناپ تول کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں برتتا تو لاعلمی میں کوئی تقصیر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ اس آیت کریمہ سے علمائے اصول یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ پس اسے جو حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ممکن حد تک اس کی تعمیل کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ ﴿وَاِذَا قُلْتُمْ﴾ ’’جب کوئی بات کہو۔‘‘ یعنی جب تم کوئی بات کہو جو لوگوں کے درمیان کسی فیصلے، کسی خطاب کی تفصیل پر مبنی ہو یا تم احوال و مقالات پر کلام کر رہے ہو ﴿ فَاعْدِلُوْ﴾ ’’تو انصاف سے کہو۔‘‘ یعنی صدق، انصاف اور عدم کتمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان جن کو تم پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو، عدل سے بات کرو کیونکہ جسے آپ ناپسند کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اس کے مقالات کے بارے میں اس کے خلاف حد سے بڑھ کر بات کرنا ظلم ہے جو کہ حرام ہے۔ بلکہ اگر صاحب علم اہل بدعت کے مقالات و نظریات پر کلام کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرے اور ان مقالات میں جو کچھ حق اور باطل موجود ہے اس کو پوری طرح بیان کرے کہ ان مقالات میں کون سی چیز حق کے قریب اور کون سی چیز حق سے دور ہے۔ فقہاء نے یہاں تک ذکر کیا ہے کہ قاضی پر فرض ہے کہ وہ فریقین کے درمیان اپنے لہجے اور اپنی نظر میں بھی انصاف کرے۔ ﴿ وَبِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا﴾ ’’اور اللہ کا عہد پورا کرو‘‘ یہ آیت کریمہ اس عہد کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے حقوق پورے کروانے کے بارے میں لیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو مخلوق کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ پس ان تمام معاہدوں کو پورا کرنا فرض اور ان کو توڑنا یا ان میں خلل اندازی کرنا حرام ہے ﴿ذٰلِكُمْ﴾ مذکورہ تمام احکام میں ﴿ وَصّٰؔىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ﴾ ’’تم کو حکم کر دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو‘‘ یعنی وہ تمام احکام جو اس نے تمھارے لیے بیان کیے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کی اس وصیت کو پوری طرح قائم کرو جو اس نے تمھیں کی ہے اور تم ان تمام حکمتوں اور احکام کی معرفت حاصل کر لو جو ان کے اندر ہیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [152
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF