Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
6
SuraName
تفسیر سورۂ انعام
SegmentID
434
SegmentHeader
AyatText
{136} يخبر تعالى عما عليه المشركون المكذِّبون للنبي - صلى الله عليه وسلم - من سفاهة العقل وخفة الأحلام والجهل البليغ، وعدَّد تبارك وتعالى شيئاً من خرافاتهم؛ لينبِّه بذلك على ضلالهم والحذر منهم، وأن معارضة أمثال هؤلاء السفهاء للحقِّ الذي جاء به الرسول لا تقدح فيه أصلاً؛ فإنَّهم لا أهليَّة لهم في مقابلة الحق، فذكر من ذلك أنهم: {جعلوا للهِ} نصيباً {مما ذَرَأ من الحَرْثِ والأنعام}: ولشركائهم من ذلك نصيباً، والحال أنَّ الله تعالى هو الذي ذرأه للعباد وأوجده رزقاً، فجمعوا بين محذورين محظورين، بل ثلاثة محاذير: منَّتهم على الله في جعلهم له نصيباً مع اعتقادهم أنَّ ذلك منهم تبرُّع. وإشراك الشركاء الذين لم يرزُقوهم ولم يوجدوا لهم شيئاً في ذلك. وحكمهم الجائر في أنَّ ما كان للهِ لم يبالوا به ولم يهتمُّوا، ولو كان واصلاً إلى الشركاء وما كان لشركائهم؛ اعتنوا به واحتفظوا به ولم يصلْ إلى الله منه شيءٌ، وذلك أنهم إذا حصل لهم من زروعهم وثمارهم وأنعامهم التي أوجدها الله لهم شيء؛ جعلوه قسمينِ: قسماً قالوا: هذا لله بقولهم وزعمهم، وإلاَّ؛ فالله لا يقبلُ إلا ما كان خالصاً لوجهه ولا يقبلُ عمل مَن أشرك به، وقسماً جعلوه حصة شركائِهِم من الأوثان والأنداد؛ فإن وصل شيء مما جعلوه لله واختلط بما جعلوه لغيره؛ لم يبالوا بذلك، وقالوا: الله غنيٌّ عنه فلا يردُّونه، وإن وصل شيءٌ مما جعلوه لآلهتهم إلى ما جعلوه لله؛ ردُّوه إلى محلِّه، وقالوا: إنها فقراء، لا بدَّ من ردِّ نصيبها؛ فهل أسوأ من هذا الحكم وأظلم حيث جعلوا ما للمخلوق يجتهد فيه وينصح ويحفظ أكثر مما يفعل بحقِّ الله. ويحتمل أن تأويل الآية الكريمة ما ثبت في «الصحيح» عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: أنَّه قال عن الله تعالى: أنّه قال: «أنا أغنى الشُّركاءِ عن الشرك، مَنْ أشرك معي شيئاً؛ تركتُه وشِرْكَه» ، وأنَّ معنى الآية أنَّ ما جعلوه وتقربوا به لأوثانهم فهو تقرُّبٌ خالصٌ لغير الله، ليس لله منه شيءٌ، وما جعلوه لله على زعمهم؛ فإنه لا يصل إليه؛ لكونِهِ شركاً، بل يكون حظَّ الشركاء والأنداد؛ لأن الله غنيٌّ عنه، لا يقبل العمل الذي أشرك به معه أحدٌ من الخلق.
AyatMeaning
[136] اللہ تعالیٰ رسول اللہe کی تکذیب کرنے والے مشرکین کی بیوقوفی، کم عقلی اور انتہا کو پہنچی ہوئی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، چنانچہ ان کی متعدد خرافات کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ ان کی گمراہی پر متنبہ کر کے اہل ایمان کو ان سے بچائے اور ان بیوقوفوں کا اس حق کی مخالفت کرنا، جسے انبیا و رسل لے کر مبعوث ہوئے ہیں ، حق میں نقص کا باعث نہیں ۔ کیونکہ وہ حق کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا ﴾ ’’اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مویشی اور کھیتی پیدا کی ہے وہ اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ بھی مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لیے مقرر کرتے ہیں ۔ درآں حالیکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کر کے بندوں کے لیے رزق فراہم کیا ہے۔ انھوں نے دو محظور امور بلکہ تین کو یکجا کر دیا جن سے بچنے کے لیے ان کو کہا گیا تھا۔ (۱) اللہ تعالیٰ پر ان کا احسان دھرنا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا حصہ مقرر کیا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر نوازش ہے۔ (ب) اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کی پیداوار میں شریک کرنا حالانکہ وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی وجود میں نہیں لائے۔ (ج) اور ظلم و جور پر مبنی ان کا یہ فیصلہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حصے کی کوئی پروا نہیں کرتے، اگرچہ یہ حصہ اپنے شریکوں کے حصے کے ساتھ ملا دیں اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے حصے کو درخور اعتناء سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصے کے ساتھ نہیں ملاتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مشرکین کو کھیتیوں اور پھلوں کی پیداوار اور مویشی حاصل ہوتے، جن کو اللہ تعالیٰ ان کے لیے وجود میں لایا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے (۱) ایک حصے کے بارے میں بزعم خود کہتے ’’یہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔‘‘حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کی رضا کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کے عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (۲) دوسرا حصہ اپنے ٹھہرائے ہوئے معبودوں اور بتوں کی نذر کرتے تھے، اگر کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے حصے میں سے نکل کر اس حصے میں خلط ملط ہو جاتی جو غیر اللہ کے لیے مقرر کیا تھا تو اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ کے حصہ کی طرف نہیں لوٹاتے تھے اور کہتے تھے ’’اللہ اس سے بے نیاز ہے‘‘ اور اگر کوئی چیز، جو انھوں نے اپنے معبودوں اور بتوں کے لیے مقرر کی تھی اس حصے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی جو اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا تھا تو اسے بتوں کے لیے مقرر حصے کی طرف لوٹا دیتے اور کہتے ’’یہ بت تو محتاج ہیں اس لیے ان کے حصے کو ان کی طرف لوٹانا ضروری ہے‘‘۔۔۔۔ کیا اس سے بڑھ کر ظلم پر مبنی، بدترین فیصلہ کوئی اور ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انھوں نے جو حصہ مخلوق کے لیے مقرر کیا ہے اس کی اللہ تعالیٰ کے حق سے زیادہ خیر خواہی اور حفاظت کرتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں اس معنی کا احتمال بھی ہو سکتا ہے جو رسول اللہe کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں تمام شریکوں سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں ۔ جو کوئی میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے میں اسے چھوڑ کر اس کے شرک کے حوالے کر دیتا ہوں ۔۔۔۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب تحریم الریاء، حدیث: 3985) آیت کریمہ کے معنی یہ ہیں کہ مشرکین نے اپنے معبودوں اور بتوں کے تقرب کے حصول کے لیے جو حصے مقرر کر رکھے ہیں وہ خالص غیر اللہ کے لیے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں ۔ اور ان کے زعم باطل کے مطابق انھوں نے جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے مقرر کیا ہے وہ ان کے شرک کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں پہنچتا۔ بلکہ یہ بھی ان کے معبودوں اور بتوں کا حصہ ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ وہ مخلوق میں سے اس شخص کا عمل کبھی قبول نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[136
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List