Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 30
- SegmentHeader
- AyatText
- {74} {ثم قست قلوبكم}؛ أي: اشتدت وغلظت فلم تؤثر فيها الموعظة {من بعد ذلك}؛ أي: من بعد ما أنعم الله عليكم بالنعم العظيمة وأراكم الآيات، ولم يكن ينبغي أن تقسو قلوبكم لأن ما شاهدتم مما يوجب رقة القلب وانقياده، ثم وصف قسوتها بأنها {كالحجارة} التي هي أشد قسوة من الحديد، لأن الحديد؛ والرصاص إذا أذيب في النار ذاب بخلاف الأحجار، وقوله: {أو أشد قسوة}؛ أي: أنها لا تقصر عن قساوة الأحجار، وليست «أو» بمعنى بل. ثم ذكر فضيلة الأحجار على قلوبهم فقال: {وإن من الحجارة لما يتفجر منه الأنهار وإن منها لما يشقق فيخرج منه الماء وإن منها لما يهبط من خشية الله}، فبهذه الأمور فَضَلَتْ قلوبَكم. ثم توعدهم تعالى أشد الوعيد فقال: {وما الله بغافل عمَّا تعملون}، بل هو عالم بها حافظ لصغيرها وكبيرها، وسيجازيكم على ذلك أتم الجزاء وأوفاه. واعلم أن كثيراً من المفسرين رحمهم الله قد أكثروا في حشو تفاسيرهم من قصص بني إسرائيل، ونزَّلوا عليها الآيات القرآنية، وجعلوها تفسيراً لكتاب الله، محتجين بقوله - صلى الله عليه وسلم -: «حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج». والذي أرى أنه وإن جاز نقل أحاديثهم على وجه تكون مفردة غير مقرونة ولا منزلة على كتاب الله، فإنه لا يجوز جعلها تفسيراً لكتاب الله قطعاً إذا لم تصح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وذلك أن مرتبتها كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم» ، فإذا كانت مرتبتها أن تكون مشكوكاً فيها، وكان من المعلوم بالضرورة من دين الإسلام أن القرآن يجب الإيمان به والقطع بألفاظه ومعانيه، فلا يجوز أن تجعل تلك القصص المنقولة بالروايات المجهولة التي يغلب على الظن كذبها، أو كذب أكثرها معاني لكتاب الله مقطوعاً بها، ولا يستريب بهذا أحد، ولكن بسبب الغفلة عن هذا حصل ما حصل، والله الموفق.
- AyatMeaning
- [74] ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُ٘لُ٘وْبُكُمْ ﴾ یعنی پھر تمھارے دل بہت سخت ہو گئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ﴾ یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمھیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمھارے دلوں کا سخت ہو جانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دلوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَالْحِجَارَةِ﴾ یعنی وہ سختی میں (پتھر کی مانند ہیں) جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً﴾ ’’یا اس سے بھی زیادہ سخت‘‘ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں کی سختی سے کم نہیں۔ یہاں (او) (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِنَّ مِنَ الْؔحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْ٘هٰرُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَ٘شَّ٘قَّ٘قُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ﴾ کیونکہ ’’بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمھارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا: ﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا٘ تَعْمَلُ٘وْنَ﴾ یعنی وہ تمھارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمھارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے وہ تمھارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمھیں تمھارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے مفسرین (s) نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہeکے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں ’حَدِّثُوْا عَنْ بَنِی اِسْرَائِیْلَ وَلاَ حَرَجَ‘ (سنن أبی داود، العلم، باب الحديث عن بنی اسرائیل، حديث:3662)’’بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جبکہ وہ رسول اللہeسے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہeکے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ’لَا تُصَدِّقُوْا اَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُم‘ (صحیح بخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا، حديث:4485) ’’تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔‘‘ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے۔ لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں۔ یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [74]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF