Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 378
- SegmentHeader
- AyatText
- {110} {إذ قالَ الله يا عيسى ابنَ مريم اذْكُرْ نعمتي عليك وعلى والِدَتِكَ}؛ أي: اذْكُرْها بقلبِك ولسانِك، وقُم بواجِبِها شكراً لربِّك، حيثُ أنعم عليك نِعَماً ما أنعم بها على غيرك، {إذ أيَّدتُك بروح القُدُس}؛ أي: إذ قوَّيْتك بالرُّوح والوحي الذي طهَّرَكَ وزكَّاك وصار لك قوة على القيام بأمر الله والدعوةِ إلى سبيله. وقيل: إنَّ المراد بروح القُدُس جبريلُ عليه السلام، وأنَّ الله أعانه به وبملازمتِهِ له وتثبيتِهِ في المواطن المُشِقَّة، {تكلِّمُ الناس في المهد وكهلاً}: المراد بالتَّكليم هنا غير التكليم المعهود الذي هو مجرد الكلام، وإنما المراد بذلك التكليم الذي ينتفع به المتكلِّم والمخاطب، وهو الدعوة إلى الله، ولعيسى عليه السلام من ذلك ما لإخوانه من أولي العزم من المرسلين من التكليم في حال الكهولة بالرسالة والدعوة إلى الخير والنهي عن الشرِّ، وامتازَ عنهم بأنَّه كلَّم الناس في المهد، فقال: {إنِّي عبدُ اللهِ آتانِيَ الكِتابَ وجَعَلني نبياً، وَجَعَلَني مباركاً أين ما كنتُ وأوصاني بالصَّلاة والزَّكاةِ ما دمتُ حيًّا ... } الآية. {وإذْ علَّمْتُك الكتابَ والحكمةَ}؛ فالكتابُ: يشمل الكتب السابقة، وخصوصاً التوراة؛ فإنه من أعلم أنبياء بني إسرائيل بعد موسى بها، ويشمل الإنجيل الذي أنزله الله عليه. والحكمة: هي معرفة أسرار الشرع وفوائده وحكمه وحسن الدعوة والتعليم ومراعاة ما ينبغي على الوجه الذي ينبغي. {وإذ تَخْلُقُ من الطينِ كهيئة الطَّيْرِ}؛ أي: طيراً مصوّراً لا روح فيه، {فتَنفُخُ} فيه فيكون {طيراً} بإذنِ اللهِ {وتُبْرِئُ الأكمهَ}: الذي لا بَصَرَ له ولا عينَ، {والأبرصَ بإذني وإذْ تُخْرِجُ الموتى بإذني}: فهذه آيات بيناتٌ ومعجزاتٌ باهرات يعجَزُ عنها الأطباء وغيرُهم أيَّد الله بها عيسى وقوَّى بها دعوته. {وإذ كففتُ بني إسرائيل عنك إذ جئتَهم بالبيناتِ فقال الذين كفروا منهم} ـ لما جاءهم الحقُّ مؤيَّداً بالبيناتِ الموجبة للإيمان به ـ: {إن هذا إلا سحرٌ مبينٌ}: وهمُّوا بعيسى أن يقتُلوه وسَعَوا في ذلك فكفَّ الله أيديَهم عنه، وحفظه منهم، وعصمه. فهذه مننٌ امتنَّ الله بها على عبده ورسوله عيسى ابن مريم ودعاه إلى شكرها والقيام بها، فقام بها عليه الصلاة (والسلام) ، أتمَّ القيام، وصَبَرَ كما صَبَرَ إخوانهُ من أولي العزم.
- AyatMeaning
- [110] ﴿ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَعَلٰى وَالِدَتِكَ ﴾ ’’جبکہ ا اللہ نے، اے عیسیٰ بن مریم! یاد کر میری نعمت جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوئی‘‘ یعنی اپنے دل اور زبان سے یاد کیجیے اور اس کے واجبات کو ادا کر کے اپنے رب کا شکر کیجیے۔ کیونکہ اس نے آپ کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیں ۔ ﴿ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ﴾ ’’جب میں نے روح القدس سے تیری مدد کی۔‘‘ یعنی جب ہم نے تجھ کو روح اور وحی کے ذریعے سے تقویت دی، جس نے تجھ کو پاک کیا اور تجھ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی طرف دعوت دینے کی قوت حاصل ہوئی اور بعض نے کہا کہ روح القدس سے مراد جبریل ہیں ۔ بڑے بڑے سخت مقامات پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی ملازمت (ساتھ رہنے) اور ان کے ذریعے سے ثبات عطا کر کے جناب عیسیٰu کی مدد فرمائی۔ ﴿ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَؔكَهْلًا ﴾ ’’تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں ‘‘ یہاں کلام کرنے سے مراد مجرد کلام کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ کلام ہے جس سے متکلم اور مخاطب دونوں مستفید ہوں ۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا۔ جناب عیسیٰ کو اس عمر میں رسالت، بھلائیوں کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری عطا کر دی گئی اور دیگر اولو العزم انبیا و مرسلین کو بڑی عمر میں یہ ذمہ داری عطا کی گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ تمام انبیائے کرام میں اس بنا پر ممتاز ہیں کہ انھوں نے پنگھوڑے میں کلام فرمایا ﴿ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ۰۰وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَؔكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا﴾ (مریم: 19؍30،31) ’’میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی اور مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا۔ جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکٰوۃ کی وصیت فرمائی‘‘۔ ﴿وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ’’اور جب سکھلائی میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت‘‘ یہ کتاب تمام کتب سابقہ خصوصاً تورات کو شامل ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰu جناب موسیٰ کے بعد تورات کے سب سے بڑے عالم تھے۔۔۔ اور انجیل کو بھی شامل ہے جو ان پر نازل کی گئی.... حکمت سے اسرار شریعت، اس کے فوائد اور اس کی حکمتوں کی معرفت، دعوت و تعلیم کی خوبی اور تمام امور کا ان کی اہمیت اور مناسبت کے مطابق خیال رکھنا مراد ہے۔ ﴿وَاِذْ تَخْلُ٘قُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ ﴾ ’’اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی سی صورت‘‘ یعنی پرندوں کی تصویر جس میں روح نہیں ہوتی ﴿بِـاِذْنِیْ فَ٘تَ٘نْ٘فُ٘خُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الْاَكْمَهَ ﴾ ’’پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہو جاتا اور اچھا کرتا تھا تو مادر زاد اندھے کو‘‘ (اَ لْاَکْمَہَ) اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بینائی ہو نہ آنکھ ﴿وَالْاَبْرَصَ بِـاِذْنِیْ١ۚ وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِیْ ﴾ ’’اور کوڑھی کو، میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے‘‘ یہ واضح نشانیاں اور نمایاں معجزات ہیں جن سے بڑے بڑے اطباء وغیرہ بھی عاجز ہیں ۔ ان معجزات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰu کی مدد فرمائی اور اس کے ذریعے سے ان کی دعوت کو تقویت بخشی۔ ﴿وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ ﴾ ’’اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تو لے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو کہا ان لوگوں نے جو ان میں سے کافر تھے‘‘ یعنی جب ان کے پاس حق آ گیا جس کی ایسے دلائل کے ساتھ تائید کی گئی تھی جن پر ایمان لانا واجب ہے تو انھوں نے کہا ﴿ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ ’’یہ تو کھلا جادو ہے‘‘ اور انھوں نے جناب عیسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ روک دیے اور حضرت عیسیٰ کی ان سے حفاظت کی اور ان کو ان کے شر سے بچا لیا۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات جن سے اس نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم کو نوازا اور ان کو ان احسانات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور ان کو قائم کرنے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ نے ان احسانات کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کیا اور اس راہ کی سختیوں پر اسی طرح صبر کیا جس طرح دیگر اولو العزم انبیا و رسل نے صبر کیا تھا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [110
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF