Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 377
- SegmentHeader
- AyatText
- {108} قال الله تعالى في بيان حكمة تلك الشهادة وتأكيدها وردِّها على أولياء الميِّت حين تظهر من الشاهدين الخيانة: {ذلك أدنى}؛ أي: أقرب {أن يأتوا بالشَّهادة على وجهها}: حين تؤكَّد عليهما تلك التأكيدات {أو يخافوا أن تُرَدَّ أيمانٌ بعد أيْمانِهِم}؛ أي: أن لا تُقبل أيمانُهم ثم تردَّ على أولياء الميت {والله لا يهدي القومَ الفاسقين}: أي: الذين وَصْفُهم الفسقُ؛ فلا يريدون الهدى والقصد إلى الصراط المستقيم. وحاصل هذا أنَّ الميِّت إذا حضره الموت في سفر ونحوه مما هو مَظِنَّة قلة الشهود المعتبرين: أنه ينبغي أن يوصِيَ شاهدَيْن مسلمَيْن عدلين؛ فإن لم يجد إلا شاهدين كافرين؛ جاز أن يوصي إليهما، ولكن لأجل كفرهما؛ فإن الأولياء إذا ارتابوا بهما؛ فإنهم يحلِّفونهما بعد الصلاة أنَّهما ما خانا ولا كذبا ولا غيَّرا ولا بدَّلا، فيبرآن بذلك من حقٍّ يتوجَّه إليهما؛ فإن لم يصدِّقوهما ووجدوا قرينةً تدلُّ على كذب الشاهدين؛ فإن شاء أولياءُ الميِّت؛ فليقم منهم اثنان، فيقسِمان بالله لشهادَتُهُما أحقُّ من شهادة الشاهدين الأولين، وأنَّهما خانا وكذَبا، فيستحقون منهما ما يدَّعون. وهذه الآيات الكريمة نزلت في قصة تميم الداريِّ وعديِّ بن بداء المشهورة ، حين أوصى لهما العدويُّ. والله أعلم. ويُستدلُّ بالآيات الكريمات على عدة أحكام: منها: أن الوصية مشروعةً، وأنه ينبغي لمن حَضَرَه الموت أن يوصي. ومنها: أنها معتبرةٌ ولو كان الإنسان وَصَلَ إلى مقدِّمات الموت وعلامته ما دام عقله ثابتاً. ومنها: أن شهادة الوصية لا بدَّ فيها من اثنين عدلين. ومنها: أن شهادة الكافرين في هذه الوصية ونحوها مقبولةٌ لوجود الضَّرورة. وهذا مذهب الإمام أحمد. وزعم كثير من أهل العلم أن هذا الحكم منسوخ، وهذه دعوى لا دليل عليها. ومنها: أنه ربَّما استُفيد من تلميح الحكم ومعناه، أنَّ شهادة الكفار عند عدم غيرهم حتى في غير هذه المسألة مقبولةٌ؛ كما ذهب إلى ذلك شيخ الإسلام ابن تيمية. ومنها: جواز سفر المسلم مع الكافر إذا لم يكن محذورٌ. ومنها: جواز السفر للتجارة. ومنها: أن الشاهدين إذا ارتيب منهما، ولم تبدُ قرينةٌ تدلُّ على خيانتهما، وأراد الأولياء أن يؤكِّدوا عليهم اليمين، ويحبِسوهما من بعد الصلاة، فيقسمان بصفة ما ذكر الله تعالى. ومنها: أنه إذا لم تحصل تهمةٌ ولا ريبٌ؛ لم يكن حاجةٌ إلى حبسهما وتأكيد اليمين عليهما. ومنها: تعظيم أمر الشهادة؛ حيث أضافها تعالى إلى نفسه، وأنه يجب الاعتناء بها والقيام بها بالقسط. ومنها: أنَّه يجوز امتحان الشاهدين عند الرِّيبة منهما وتفريقهما لينظرعن شهادتهما. ومنها: أنه إذا وُجدت القرائن الدَّالة على كذب الوصيين في هذه المسألة؛ قام اثنان من أولياء الميت، فأقسما بالله أن أيماننا أصدق من أيمانهما ولقد خانا وكذبا، ثم يُدفع إليهما ما ادَّعياه، وتكون القرينة مع أيمانهما قائمة مقام البيِّنة.
- AyatMeaning
- [108] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گواہی، اس کی تاکید اور دونوں گواہوں سے خیانت ظاہر ہونے پر گواہی کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹانے کی حکمت بیان کی ہے۔ ﴿ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى ﴾ ’’اس طریق سے بہت قریب ہے۔‘‘ یعنی یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے ﴿ اَنْ یَّ٘اْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ ﴾ ’’کہ وہ ادا کریں گواہی کو ٹھیک طریقے پر‘‘ یعنی جب ان گواہوں کو مذکورہ تاکیدات کے ذریعے سے تاکید کی جائے گی ﴿ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ ﴾ ’’اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی۔‘‘ یعنی ان کو خوف ہو گا کہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان قسموں کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹا دیا جائے گا ﴿وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْ٘فٰسِقِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ یعنی وہ لوگ جن کا وصف فسق ہے جو ہدایت چاہتے ہیں، نہ راہ راست پر چلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ سفر وغیرہ میں جب میت کی موت کا وقت آ جائے اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں گمان یہ ہو کہ معتبر گواہ بہت کم ہوں گے تو میت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ دو مسلمان عادل گواہوں کے سامنے وصیت کرے اور اگر صرف دو کافر گواہ مہیا ہو سکیں تو ان کے پاس بھی وصیت کرنا جائز ہے۔ اگر ان گواہوں کے کفر کی وجہ سے میت کے اولیاء ان کے بارے میں شک کریں تو نماز کے بعد ان سے حلف لیں کہ انھوں نے خیانت کا ارتکاب کیا ہے نہ جھوٹ بولا ہے اور نہ انھوں نے وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے۔ اس طرح وہ اس حق کی ذمہ داری سے بری ہو جائیں گے جو ان پر ڈال دی گئی تھی۔ اگر میت کے اولیاء ان کی گواہی کو تسلیم نہ کریں اور وہ کوئی ایسا قرینہ پائیں جو گواہوں کے جھوٹ پر دلالت کرتا ہو۔ پس اگر میت کے اولیاء میں سے دو گواہ کھڑے ہو کر قسم اٹھائیں کہ ان کی گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے صحیح ہے اور یہ کہ پہلے گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے جھوٹ بولا ہے تو وہ ان پہلے گواہوں کے مقابلے میں اپنے دعوے میں مستحق قرار پائیں گے۔ یہ آیات کریمہ تمیم داریt اور عدی بن بداء کے قصہ میں نازل ہوئی ہیں جو بہت مشہور ہے اور قصہ یوں ہے کہ عدوی(مفسر موصوف سے سہوہوا ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک عدوی کی جگہ سہمی وارد ہوا ہے یعنی بنو سہم کا ایک آدمی) نے ان دونوں حضرات کے پاس وصیت کی تھی۔ واللہ اعلم(یہ قصہ اصل میں اس طرح ہے کہ حضرت تمیم داری (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور عدی بن بداء، یہ دونوں نصرانی تھے اور تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان بدیل بن ابی مریم بھی وہاں گئے ہوئے تھے، وہاں بدیل سخت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور اپنا سامان بھی ان کے سپرد کردیا کہ وہ اسے ان کے گھر پہنچادیں ۔ ان دونوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک پیالہ نکال کر بیچ دیا اور اس کی رقم آپس میں بانٹ لی۔ بعد میں ورثاء کو اس کا علم ہوا، تو رسول اللہe نے ان سے حلف اٹھوایا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث:2780۔ جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3059) (ص۔ی) ان آیات کریمہ سے متعدد احکام پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (۱) وصیت کرنا مشروع ہے جس کی موت کا وقت قریب آ جائے تو اسے چاہیے کہ وصیت کرے۔ (۲) جب موت کے مقدمات و آثار نمودار ہو جائیں تو مرنے والے کی وصیت اس وقت تک معتبر ہے جب تک اس کے ہوش و حواس قائم ہیں ۔ (۳) وصیت میں دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ (۴) وصیت اور اس قسم کے دیگر مواقع پر، بوقت ضرورت کفار کی گواہی مقبول ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ بہت سے اہل علم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مگر نسخ کے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں ۔ (۵) اس حکم کے اشارہ اور اس کے معنی سے مستفاد ہوتا ہے کہ مسلمان گواہوں کی عدم موجودگی میں وصیت کے علاوہ دیگر مسائل میں بھی کفار کی گواہی قابل قبول ہے۔ جیسا کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ (۶) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوف کی بات نہ ہو تو کفار کی معیت میں سفر جائز ہے۔ (۷) تجارت کے لیے سفرکرنا جائز ہے۔ (۸) اگر دونوں گواہوں کی گواہی کے بارے میں شک ہو مگر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتا ہو اور وصیت کرنے والے کے اولیاء ان گواہوں سے قسم لینا چاہتے ہوں تو وہ انھیں نماز کے بعد روک لیں اور ان سے اس طریقے سے قسم لیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ (۹) اگر ان دونوں کی گواہی میں کوئی شک اور تہمت نہ ہو تو ان کو روکنے اور ان سے قسم لینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (۱۰) یہ آیت کریمہ شہادت کے معاملے کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے، نیز یہ کہ اس کو درخور اعتنا سمجھنا اور انصاف کے مطابق اس کو قائم کرنا واجب ہے۔ (۱۱) گواہوں کے بارے میں اگر شک ہو تو گواہوں کا امتحان اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے گواہی لینا جائز ہے۔ تاکہ سچ اور جھوٹ کے اعتبار سے گواہی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ (۱۲) جب ایسے قرائن پائے جائیں جو اس مسئلہ میں دونوں وصیّوں (گواہوں ) کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں تو میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری قسم ان کی قسم سے زیادہ سچی ہے۔ انھوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹ کہا ہے پھر جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے حوالے کر دی جائے گی۔ ان کی قسموں کے ساتھ، قرینہ، ثبوت کے قائم مقام ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [108
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF