Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
5
SuraName
تفسیر سورۂ مائدۃ
SegmentID
368
SegmentHeader
AyatText
{90 ـ 91} يذمُّ تعالى هذه الأشياء القبيحة، ويخبر أنها من عمل الشيطان، وأنها رجس؛ {فاجتنبوه}؛ أي: اتركوه، {لعلَّكم تفلحون}؛ فإنَّ الفلاح لا يتمُّ إلاَّ بترك ما حرَّم الله، خصوصاً هذه الفواحش المذكورة، وهي الخمر، وهو كلُّ ما خامر العقل؛ أي: غطاه بسكره، والميسر، وهو جميع المغالَبات التي فيها عوض من الجانبين؛ كالمراهنة ونحوها، والأنصاب، وهي الأصنام والأنداد ونحوها مما يُنصب ويُعبد من دون الله، والأزلام التي [يستقسمون] بها. فهذه الأربعة نهى الله عنها، وزجر، وأخبر عن مفاسدها الداعية إلى تركها واجتنابها: فمنها: أنها رجسٌ؛ أي: نجس خبث معنى، وإن لم تكن نجسة حِسًّا، والأمور الخبيثة مما ينبغي اجتنابها وعدم التدنُّس بأوضارها. ومنها: أنها من عمل الشيطان الذي هو أعدى الأعداء للإنسان، ومن المعلوم أن العدوَّ يُحذر منه وتُحذر مصايده وأعماله، خصوصاً الأعمال التي يعملها ليوقع فيها عدوه؛ فإنها فيها هلاكه؛ فالحزم كلُّ الحزم البعد عن عمل العدوِّ المبين، والحذر منها، والخوف من الوقوع فيها. ومنها: أنه لا يمكن الفلاح للعبد إلاَّ باجتنابها؛ فإنَّ الفلاح هو الفوز بالمطلوب المحبوب والنجاة من المرهوب، وهذه الأمور مانعةٌ من الفلاح ومعوقةٌ له. ومنها: أنَّ هذه موجبة للعداوة والبغضاء بين الناس، والشيطانُ حريصٌ على بثِّها، خصوصاً الخمر والميسر؛ ليوقع بين المؤمنين العداوة والبغضاء فإنَّ في الخمر من انقلاب العقل وذهاب حجاه ما يدعو إلى البغضاء بينه وبين إخوانه المؤمنين، خصوصاً إذا اقترن بذلك من [السباب] ما هو من لوازم شارب الخمر؛ فإنه ربما أوصل إلى القتل، وما في الميسر من غلبة أحدهما للآخر وأخذ ماله الكثير في غير مقابلة ما هو من أكبر الأسباب للعداوة والبغضاء. ومنها: أنَّ هذه الأشياء تصدُّ القلب ويَتْبَعُه البدن عن ذكر الله وعن الصلاة اللذين خُلِقَ لهما العبد وبهما سعادتُهُ؛ فالخمرُ والميسر يصدَّانه عن ذلك أعظم صدٍّ، ويشتغل قلبه ويذهل لبُّه في الاشتغال بهما، حتى يمضيَ عليه مدة طويلة وهو لا يدري أين هو؛ فأيُّ معصية أعظم وأقبح من معصيةٍ تدنِّسُ صاحبَها، وتجعلُه من أهل الخبث، وتوقِعُه في أعمال الشيطان وشباكِهِ فينقاد له كما تنقادُ البهيمة الذَّليلة لراعيها، وتحول بين العبد وبين فلاحه، وتوقع العداوة والبغضاء بين المؤمنينَ، وتصدُّ عن ذِكْرِ الله وعن الصَّلاة؛ فهل فوق هذه المفاسد شيء أكبر منها؟! ولهذا عرض تعالى على العقول السليمة النهي عنها عرضاً بقوله: {فهل أنتم منتهون}؛ لأنَّ العاقل إذا نَظَرَ إلى بعض تلك المفاسد؛ انزجر عنها، وكفَّت نفسُه، ولم يحتج إلى وعظٍ كثيرٍ ولا زجرٍ بليغ.
AyatMeaning
[91,90] اللہ تبارک و تعالیٰ ان مذکورہ قبیح اشیا کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ یہ شیطانی اور گندے کام ہیں ۔ ﴿ فَاجْتَنِبُوْهُ ﴾ ’’پس بچو ان سے‘‘ یعنی ان گندے کاموں کو چھوڑ دو ﴿ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘ کیونکہ فلاح اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان چیزوں سے اجتناب نہ کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ خاص طور پر مذکورہ فواحش : (الف) خمر : ہر وہ چیز خمر ہے جو عقل کو ڈھانپ لے، یعنی عقل پر نشے کا پردہ ڈال دے۔ (ب) جوا : وہ تمام مقابلے جن میں جانبین کی طرف سے جیتنے والے کے لیے عوض مقرر کیا گیا ہو ، مثلاً: گھوڑ دوڑ وغیرہ کی شرط۔ (ج) انصاب : اس سے مراد وہ بت وغیرہ ہیں جن کو نصب کر دیا جاتا ہے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جاتی ہے۔ (د) پانسے : جن کے ذریعے سے لوگ اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں ۔ یہ وہ چار چیزیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور ان کے ارتکاب پر زجر و توبیخ کی ہے اور ان کے مفاسد سے آگاہ فرمایا جو ان کو ترک کرنے اور ان سے اجتناب کے داعی ہیں ۔ (۱) یہ تمام امور (رجس) یعنی ناپاک ہیں ۔ اگرچہ حسی طور پر یہ ناپاک نہیں مگر معنوی طور پر ناپاک ہیں اور ناپاک امور سے بچنا اور ان کی گندگی میں ملوث ہونے سے اجتناب کرنا ہی مناسب ہے۔ (۲) یہ تمام امور شیطانی اعمال ہیں اور شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دشمن سے ہمیشہ دور رہا جاتا ہے اور اس کی گھاتوں اور سازشوں سے بچا جاتا ہے، خاص طور پر ان اعمال سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں دشمن ملوث کر کے ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور سب سے بڑی احتیاط یہ ہے کہ اپنے کھلے دشمن کے اعمال سے دور رہ کر اس سے بچنا چاہیے اور ان اعمال میں پڑنے سے ڈرنا چاہیے۔ (۳) ان مذکورہ امور سے اجتناب کیے بغیر بندے کی فلاح ممکن نہیں ۔ فلاح، امر مطلوب کے حصول میں کامیابی اور امر مرہوب سے نجات کا نام ہے اور یہ تمام امور فلاح سے مانع اور اس کے لیے رکاوٹ ہیں ۔ (۴) یہ مذکورہ اعمال لوگوں کے درمیان بغض اور عداوت کے موجب ہیں ۔ شیطان ان اعمال کو لوگوں کے درمیان پھیلانے کا بڑا حریص ہے، خاص طور پر شراب اور جوا۔ تاکہ وہ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بو سکے۔ کیونکہ شراب پینا، عقل میں فتور آنے کا، ہوش و حواس کے چلے جانے کا اور مومن بھائیوں کے درمیان بغض اور عداوت کا سبب بنتا ہے خاص طور پر جبکہ اس کے ساتھ وہ اسباب بھی مقرون ہوں جو شراب پینے والے کے لوازم میں شمار ہوتے ہیں ۔ تب یہ شراب نوشی بسا اوقات قتل کے اقدام تک پہنچا دیتی ہے۔ جوئے میں ایک شخص کو جو دوسرے شخص پر جیت حاصل ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی مقابلہ کے بہت سا مال حاصل کر لیتا ہے تو یہ چیز بغض اور عداوت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (۵) یہ مذکورہ اعمال قلب کو ذکر الٰہی سے روکتے ہیں اور بدن کو ذکر اور نماز سے دور کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے لیے بندے کو تخلیق کیا گیا ہے اور انھی دو امور میں بندے کی سعادت ہے۔ شراب اور جوا تو ذکر الٰہی اور نماز کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قلب مشغول ہو جاتا ہے اور ذہن شراب اور جوئے میں مشغول ہو کر غافل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ طویل مدت اس پر گزر جاتی ہے اور انسان کو ہوش تک نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے۔ پس کون سا گناہ اس گناہ سے بڑھ کر قبیح ہے جو انسان کو ناپاک کر کے ناپاک لوگوں میں شامل کر دے اور وہ اسے شیطان کے اعمال، اس کے مکر و فریب کے جال میں پھنسا دے ۔اور وہ شیطان کا اس طرح مطیع ہو جائے جس طرح مویشی چرواہے کے مطیع ہوتے ہیں ۔ شیطان بندے اور اس کی فلاح کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بوتا ہے اور انھیں ذکر الٰہی اور نماز سے روکتا ہے۔ (کیا یہ مفاسد جو مذکور ہوئے، کم ہیں ) اور کیا ان مفاسد سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے جو ان سے بڑی ہو؟ بنابریں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم کو ان چیزوں سے روکتے ہوئے فرمایا ﴿ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ﴾ ’’کیا تم باز آتے ہو؟‘‘ کیونکہ ایک عقل مند شخص جب ان مفاسد میں سے کسی ایک پر نظر ڈالتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور اپنے آپ کو ان برائیوں کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ اسے کسی لمبے چوڑے وعظ اور بہت زیادہ زجر و توبیخ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
Vocabulary
AyatSummary
[91,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List