Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
5
SuraName
تفسیر سورۂ مائدۃ
SegmentID
357
SegmentHeader
AyatText
{64} يخبر تعالى عن مقالة اليهود الشنيعة وعقيدتهم الفظيعة، فقال: {وقالت اليهود يدُ الله مغلولةٌ}؛ أي: عن الخير والإحسان والبرِّ! {غُلَّتْ أيديهم ولُعِنوا بما قالوا}: وهذا دعاء عليهم بجنس مقالتهم؛ فإن كلامهم متضمن لوصف الله الكريم بالبخل وعدم الإحسان، فجازاهم بأن كان هذا الوصف منطبقاً عليهم؛ فكانوا أبخل الناس وأقلَّهم إحساناً وأسوأهم ظنًّا بالله وأبعدَهم عن رحمته التي وَسِعَتْ كلَّ شيءٍ وملأت أقطار العالم العلويِّ والسفليِّ، ولهذا قال: {بل يداه مبسوطتانِ يُنفِقُ كيفَ يشاءُ}: لا حَجْر عليه ولا مانعَ يمنعُه مما أراد؛ فإنَّه تعالى قد بَسَطَ فضله وإحسانه الدينيَّ والدنيويَّ، وأمر العباد أن يتعرَّضوا لنفحات جودِهِ، وأن لا يسدُّوا على أنفسهم أبواب إحسانِهِ بمعاصيهم، فيدُهُ سحَّاءُ الليل والنهار، وخيرُهُ في جميع الأوقات مدرارٌ؛ يفرِّج كرباً، ويزيل غمًّا، ويغني فقيراً، ويفكُّ أسيراً، ويجبرُ كسيراً، ويجيب سائلاً، ويعطي فقيراً عائلاً، ويُجيب المضطرِّين، ويستجيب للسائلين، وينعِم على مَن لم يسأله، ويعافي من طلب العافية، ولا يحرم من خيره عاصياً، بل خيره يرتع فيه البَرُّ والفاجر ويجود على أوليائِهِ بالتوفيق لصالح الأعمال ثم يحمدُهم عليها ويضيفُها إليهم وهي من جوده ويُثيبهم عليها من الثواب العاجل والآجل ما لا يدركُهُ الوصفُ ولا يخطُر على بال العبد، ويلطُف بهم في جميع أمورهم، ويوصِلُ إليهم من الإحسان، ويدفع عنهم من النقم ما لا يشعرونَ بكثيرٍ منه؛ فسبحانَ مَن كلُّ النِّعم التي بالعباد فمنه وإليه يجأرون في دفع المكاره، وتبارك من لا يُحْصي أحدٌ ثناءً عليه، بل هو كما أثنى على نفسه، وتعالى من لا يخلو العباد من كرمِهِ طرفة عين، بل ولا وجود لهم ولا بقاء إلا بجوده، وقبَّح الله من استغنى بجهلِهِ عن ربِّه ونسبه إلى ما لا يليق بجلاله، بل لو عامل اللهُ اليهود القائلين تلك المقالة ونحوَهم ممَّن حاله كحالهم ببعض قولِهِم؛ لهلكوا وشقوا في دنياهم، ولكنهم يقولون تلك الأقوال، وهو تعالى يحلم عنهم، ويصفح، ويمهلهم، لا يهملهم. وقوله: {وليزيدنَّ كثيراً منهم ما أُنزِلَ إليكَ مِن ربِّكَ طغياناً وكفراً}: وهذا أعظم العقوبات على العبد: أن يكون الذِّكر الذي أنزله الله على رسوله، الذي فيه حياة القلب والروح وسعادة الدُّنيا والآخرة وفلاح الدَّارين، الذي هو أكبر مِنَّةٍ امتنَّ الله بها على عباده، توجب عليهم المبادرة إلى قبولها والاستسلام لله بها وشكراً لله عليها، أن تكون لمثل هذا زيادةُ غيٍّ إلى غيِّه وطغيانٍ إلى طغيانه وكفر إلى كفره، وذلك بسبب إعراضه عنها وردِّه لها ومعاندته إياها ومعارضته لها بالشبه الباطلة. {وألقينا بينهم العداوة والبغضاء إلى يوم القيامة}: فلا يتآلفون ولا يتناصرون ولا يتَّفقون على حالةٍ فيها مصلحتهم، بل لم يزالوا متباغضين في قلوبهم متعادين بأفعالهم إلى يوم القيامة، {كلَّما أوقدوا ناراً للحرب}: ليكيدوا بها الإسلام وأهله وأبْدُوا وأعادوا وأجلبوا بخيلهم ورجلهم، {أطفأها الله}: بخِذلانهم وتفرُّق جنودِهم وانتصار المسلمين عليهم، {ويسعَوْن في الأرض فساداً}؛ أي: يجتهدون ويجدِّون ولكن بالفساد في الأرض؛ بعمل المعاصي والدعوة إلى دينهم الباطل والتعويق عن الدُّخول في الإسلام، {والله لا يحبُّ المفسدين}: بل يبغِضُهم أشدَّ البغض، وسيجازيهم على ذلك.
AyatMeaning
[64] اللہ تبارک و تعالیٰ یہود کے انتہائی خبیث قول اور ان کے قبیح ترین عقیدے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ وَقَالَتِ الْ٘یَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ﴾ ’’یہود نے کہا، اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا ہے‘‘ یعنی بھلائی احسان اور نیکی سے ﴿ غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا﴾ ’’انھی کے ہاتھ بند ہو جائیں اور لعنت ہے ان کے اس کہنے پر‘‘ یہ انھی کی گفتگو کی جنس کے ساتھ ان کے لیے بددعا ہے چونکہ ان کی یہ بدگوئی اللہ کریم کو بخل اور عدم احسان کی صفات سے متصف کرنے کی متضمن ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی وصف کو منطبق کرکے ان کو اس بدگوئی کا بدلہ دیا ہے۔ پس یہود بخیل ترین، نیکی کے اعتبار سے قلیل ترین، اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظنی میں بدترین اور اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے بعید ترین لوگ ہیں جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس سے تمام عالم علوی اور سفلی لبریز ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ١ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ﴾ ’’بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے‘‘ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں اور کوئی روکنے والا نہیں جو اسے اپنے ارادے سے روک سکے۔ اس کا فضل و کرم اور دینی اور دنیاوی احسان بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جود و کرم کے جھونکوں سے مستفید ہوں ۔ وہ اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے اپنے آپ پر اس کے فضل و احسان کے دروازے بند نہ کریں ۔ اس کی داد و دہش دن رات جاری ہے، اس کی عطا و بخشش ہر وقت موسلا دھار بارش کی مانند ہے۔ وہ دکھوں کو دور کرتا ہے، غموں کا ازالہ کرتا ہے، محتاج کو بے نیاز کرتا ہے، قیدی کو آزاد کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ محتاج کو عطا کرتا ہے، مجبوروں کو ان کی پکار کا جواب دیتا ہے، سوال کرنے والوں کے سوال کو پورا کرتا ہے۔ جو اس سے سوال نہیں کرتا اسے بھی نعمتیں عطا کرتا ہے، جو اس سے عافیت طلب کرتا ہے اسے عافیت عطا کرتا ہے، وہ کسی نافرمان کو اپنی بھلائی سے محروم نہیں کرتا بلکہ نیک اور بد سب اس کی بھلائی سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے اولیا کو نیک اعمال کی توفیق سے نوازتا ہے جو اس کا جود و کرم ہے، پھر وہ ان اعمال پر ان کی تعریف کرتا اور ان کی اضافت ان کی طرف کرتا ہے اور یہ بھی اس کے جودوکرم کا نتیجہ ہے اور ان کو دنیا و آخرت میں ایسا ثواب عطا کرتا ہے کہ زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اور بندے کے طائر خیال کی اس تک رسائی ممکن نہیں ۔ وہ تمام امور میں ان کو لطف و کرم سے نوازتا ہے۔ وہ اپنا احسان ان تک پہنچاتا رہتا ہے۔ وہ اپنے طور پر ہی ان سے بہت سی مصیبتیں دور کر دیتا ہے کہ ان کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا۔ پاک ہے وہ ذات کہ بندوں کے پاس جو نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور تکالیف کو دور کرنے کے لیے اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہیں اور برکت والی ہے وہ ذات جس کی مدح و ثنا کو کوئی شمار نہیں کر سکتا، بس وہ ایسے ہے جیسے اس نے خود اپنی مدح و ثنا بیان کی۔ بالا و بلند ہے وہ ہستی کہ بندے ایک لمحے کے لیے بھی اس کے فضل و کرم سے علیحدہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا وجود اور ان کی بقا اسی کے جود و کرم کی مرہون ہے۔ اللہ تعالیٰ برا کرے ان لوگوں کا جو اپنی جہالت کی بنا پر اپنے آپ کو اپنے رب سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور اس کی طرف ایسے امور منسوب کرتے ہیں جو اس کی جلالت کے لائق نہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ ان یہود کے ساتھ، جنھوں نے یہ بدگوئی کی ہے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ ان کے کسی قول پر معاملہ کرتا تو وہ ہلاک ہو جاتے اور دنیا میں بدبختی کا شکار ہو جاتے۔ مگر وہ اس قسم کی گستاخانہ باتیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے بردباری سے پیش آتا ہے اور ان سے درگزر فرماتا ہے، ان کو ڈھیل دیتا ہے مگر ان کو مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿ وَلَیَ٘زِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّؔنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّكُفْرًا﴾ ’’اور یقینا ان میں سے بہتوں کو، وہ کلام جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، سرکشی اور کفر میں ہی بڑھائے گا‘‘ یہ بندے کے لیے سب سے بڑی سزا ہے کہ وہ ذکر، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe پر نازل کیا ہے جس میں قلب و روح کی زندگی، دنیا و آخرت کی سعادت اور فلاح ہے جو اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے ذریعے سے اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے جو ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اسے قبول کرنے کے لیے آگے بڑھیں ، اس کے سبب سے اللہ کے سامنے سر جھکا دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ... وہی ذکر اس کی گمراہی، سرکشی اور کفر میں اضافے کا باعث بن جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اس سے روگردانی کی اور اسے ٹھکرا دیا اس سے عناد رکھا اور شبہات باطلہ کی بنا پر اس کی مخالفت کی۔ ﴿ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَؔ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ﴾ ’’اور ہم نے ڈال دی ہے ان کے درمیان دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک‘‘ پس وہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کریں گے، ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گے اور وہ کسی ایسی بات پر متفق نہیں ہوں گے جس میں ان کی کوئی مصلحت ہو۔ بلکہ وہ ہمیشہ اپنے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور بغض رکھیں گے اور قیامت تک ایک دوسرے پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب کرتے رہیں گے۔ ﴿ كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ ﴾ ’’جب کبھی آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے لیے‘‘ تاکہ اس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں ، ان کے خلاف چالیں چلیں اور ان پر سوار اور پیادے چڑھا لائیں ﴿ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ﴾ ’’اللہ اس کو بجھا دیتا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر، ان کے لشکروں کو منتشر کر کے، ان کے خلاف مسلمانوں کی نصرت فرما کر اس آگ کو بجھا دیتا ہے۔ ﴿ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا﴾ ’’اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں ۔‘‘ یعنی زمین میں فساد پھیلانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔ معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اپنے باطل دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں ﴿ وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ ’’اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ بلکہ ان کے ساتھ سخت ناراض ہوتا ہے وہ عنقریب انھیں اس کی سزا دے گا۔
Vocabulary
AyatSummary
[64]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List