Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 353
- SegmentHeader
- AyatText
- {54} يخبر تعالى أنَّه الغني عن العالمين، وأنه من يرتدَّ عن دِينِه؛ فلن يضرَّ الله شيئاً، وإنما يضرُّ نفسه، وأنَّ لله عباداً مخلصين ورجالاً صادقين قد تكفَّل الرحمن الرحيم بهدايتهم ووعد بالإتيان بهم، وأنهم أكمل الخلق أوصافاً وأقواهم نفوساً وأحسنُهم أخلاقاً: أجلُّ صفاتهم أنَّ الله {يحبُّهم ويحبُّونه}؛ فإنَّ محبَّة الله للعبد هي أجلُّ نعمة أنعم بها عليه وأفضل فضيلة تفضَّل الله بها عليه، وإذا أحبَّ الله عبداً؛ يسَّرَ له الأسباب، وهوَّن عليه كلَّ عسيرٍ، ووفَّقه لفعل الخيرات وترك المنكرات، وأقبل بقلوب عبادِهِ إليه بالمحبَّة والوداد. ومن لوازم محبَّة العبد لربه أنَّه لا بدَّ أن يتَّصف بمتابعة الرسول - صلى الله عليه وسلم - ظاهراً وباطناً في أقواله وأعماله وجميع أحواله؛ كما قال تعالى: {قُلْ إن كُنتم تحبُّونَ الله فاتَّبعوني يُحْبِبْكُمُ الله}، كما أنَّ من لوازم محبَّة الله للعبد أن يكثر العبد من التقرُّب إلى الله بالفرائض والنوافل؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - في الحديث الصحيح عن الله: «وما تقرَّبَ إليَّ عبدي بشيءٍ أحبَّ إليَّ مما افترضت عليه، ولا يزال عبدي يتقرَّب إليَّ بالنوافل حتى أحبَّه؛ فإذا أحببتُهُ؛ كنتُ سمعه الذي يسمعُ به، وبصرَه الذي يبصِرُ به، ويَدَهُ التي يبطِش بها. ورجلَه التي يمشي بها، ولئن سألني؛ لأعطينَّه، ولئن استعاذني؛ لأعيذنَّه». ومن لوازم محبة الله معرفتُه تعالى والإكثار من ذكره؛ فإن المحبة بدون معرفة بالله ناقصة جدًّا، بل غير موجودة، وإن وجدت دعواها، ومن أحبَّ اللهَ؛ أكثر من ذكرِهِ، وإذا أحبَّ اللهُ عبداً؛ قبل منه اليسير من العمل، وغفر له الكثير من الزلل. ومن صفاتهم أنهم: {أذلَّةٍ على المؤمنين أعزَّةٍ على الكافرين}؛ فهم للمؤمنين أذلَّة من محبتهم لهم ونُصحهم لهم ولينهم ورِفْقهم ورأفَتِهم ورحْمَتِهم بهم وسهولة جانبهم وقرب الشيء الذي يُطلب منهم، وعلى الكافرين بالله المعاندين لآياته المكذِّبين لرسُلِهِ أعزَّة، قد اجتمعت هممهم وعزائمهم على معاداتهم، وبذلوا جهدهم في كل سبب يحصل به الانتصار عليهم: قال تعالى: {وأعِدُّوا لهم ما استطعتُم من قُوَّةٍ ومن رِباط الخيل تُرهبونَ به عدَّو الله وعدوَّكم}. وقال تعالى: {أشدَّاء على الكفار رحماءُ بينَهم}؛ فالغِلْظة الشديدة على أعداء الله مما يقرِّب العبد إلى الله ويوافِقُ العبد ربّه في سخطه عليهم، ولا تمنع الغِلْظة عليهم والشدة دعوتَهم إلى الدين الإسلامي بالتي هي أحسن، فتجتمع الغلظة عليهم واللين في دعوتهم، وكلا الأمرين من مصلحتهم، ونفعه عائدٌ إليهم. {يجاهدون في سبيل الله}: بأموالهم وأنفسهم بأقوالهم، وأفعالهم. {ولا يخافونَ لومة لائم}: بل يقدِّمون رضا ربِّهم والخوف من لومه على لوم المخلوقين، وهذا يدل على قوة هممهم وعزائمهم؛ فإن ضعيف القلب، ضعيف الهمة، تنتقض عزيمته عند لوم اللائمين، وتفْتُر قوتُه عند عذل العاذلين، وفي قلوبهم تعبُّدٌ لغير الله، بحسب ما فيها من مراعاة الخلق، وتقديم رضاهم ولومهم على أمر الله؛ فلا يسلم القلبُ من التعبُّد لغير الله، حتى لا يخاف في الله لومة لائم. ولما مدحهم تعالى بما منَّ به عليهم من الصفات الجميلة والمناقب العالية المستلزمة لما لم يذكر من أفعال الخير؛ أخبر أنَّ هذا من فضله عليهم وإحسانه؛ لئلا يُعجَبوا بأنفسهم، وليشكروا الذي منَّ عليهم بذلك؛ ليزيدهم من فضله، وليعلم غيرهم أنَّ فضل الله تعالى ليس عليه حجاب، فقال: {ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله واسع عليم}؛ أي: واسع الفضل والإحسان، جزيل المنن، قد عمَّت رحمته كلَّ شيء، ويوسِّع على أوليائه من فضله ما لا يكون لغيرهم، ولكنه عليمٌ بمن يستحقُّ الفضل فيعطيه؛ فالله أعلم حيث يجعل رسالته أصلاً وفرعاً.
- AyatMeaning
- [54] اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے جو کوئی اس کے دین سے پھرجاتا ہے وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کر سکتا بلکہ وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ مخلص اور سچے بندے ہیں اللہ رحمان و رحیم ان کی ہدایت کا ضامن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لانے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اپنے اوصاف میں سب سے کامل، اپنے جسم میں سب سے طاقتور اور اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے ﴿ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗۤ﴾ ’’اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت جلیل ترین نعمت ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے بندے کو نوازا ہے اور سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے اللہ نے اپنے بندے کو مشرف فرمایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے لیے تمام اسباب مہیا کر دیتا ہے، ہر قسم کی مشکل اس پر آسان کر دیتا ہے، نیک کام کرنے اور برائیوں کو ترک کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے اور بندوں کے دلوں کو محبت اور مودت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ بندے کی محبت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اقوال و افعال اور تمام احوال میں ظاہری اور باطنی طور پر رسول اللہe کی متابعت کی صفت سے متصف ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ قُ٘لْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ۠ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ﴾ (آل عمران: 3؍31) ’’کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ جیسے بندے کے ساتھ رب کی محبت کے لوازم میں سے یہ ہے کہ بندہ کثرت سے فرائض اور نوافل کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرمe نے ایک صحیح حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نقل فرمایا ہے: ’’میرا بندہ جس چیز کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان میں فرائض سے بڑھ کر کوئی چیز مجھے محبوب نہیں ۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث: 6502) اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لوازم میں سے اس کی معرفت اور کثرت کے ساتھ اس کا ذکر کرنا بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بغیر اس کے ساتھ محبت ناقص ہے بلکہ اس محبت کا وجود ہی نہیں اگرچہ اس کا دعویٰ کیا جائے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ کثرت سے اس کا ذکر کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کے تھوڑے سے عمل کو قبول فرما لیتا ہے اور اس کی بہت سی لغزشوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے ﴿ اَذِلَّةٍ عَلَى الْ٘مُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ﴾ ’’نرم ہیں مومنوں پر، سخت ہیں کافروں پر‘‘ پس وہ اہل ایمان کے ساتھ محبت، ان کے لیے خیر خواہی، ان کے لیے نرمی اور مہربانی، ان کے لیے رحمت و رافت اور ان کے ساتھ شفقت بھرے رویے کی بنا پر ان کے لیے نرم خو ہوتے ہیں ۔ نیز کسی ایسی چیز کے قرب کی بنا پر جو اس سے مطلوب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں ، اس کی آیت سے عناد رکھنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کے لیے بہت سخت ہوتے ہیں ۔ ان کی عداوت پر ان کی ہمت اور عزائم مجتمع ہوتے ہیں اور وہ ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے ہر سبب میں پوری کوشش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُ٘وَّ٘ةٍ وَّمِنْ رِّبَ٘اطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّؔكُمْ ﴾ (الانفال: 8؍60) ’’جہاں تک ہو سکے قوت و طاقت کے ساتھ اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو، اس کے ذریعے سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ﴾ (الفتح: 48؍29) ’’وہ کافروں کے لیے نہایت سخت اور آپس میں بہت مہربان ہیں ۔‘‘اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے بارے میں سخت رویہ رکھنا، ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جس سے بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے اور ان کے ساتھ سختی اور ناراضی میں بندہ اپنے رب کی موافقت کرتا ہے اور ان کے بارے میں سخت رویہ ان کو دین اسلام کی طرف ایسے طریقے سے دعوت دینے سے مانع نہیں جو بہتر ہو۔ ان کے بارے میں سخت رویہ اور دعوت دین میں نرمی دونوں یکجا ہوں ۔ دونوں امور میں ان کے لیے مصلحت ہے جس کا فائدہ انھی کی طرف لوٹتا ہے۔ ﴿ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’وہ (اپنی جان، مال، اقوال اور افعال کے ذریعے سے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں ‘‘ ﴿ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ﴾ ’’وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے‘‘ بلکہ وہ اپنے رب کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور مخلوق کی ملامت کی بجائے اپنے رب کی ملامت سے ڈرتے ہیں ۔ اور یہ رویہ ان کے ارادوں اور عزائم کی پختگی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کمزور دل والا، ارادے کا بھی کمزور ہوتا ہے۔ ملامت گروں کی ملامت پر اس کی عزیمت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور نکتہ چینوں کی نکتہ چینی پر اس کی قوت کمزور ہو جاتی ہے۔ مخلوق کی رعایت، ان کی رضا اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر ترجیح کے مطابق بندوں کے دلوں میں غیر اللہ کا تعبد جنم لیتا ہے۔ قلب، غیر اللہ کی عبادت سے اس وقت تک محفوظ نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرنا چھوڑ نہ دے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان صفات جمیلہ اور مناقب عالیہ سے نواز کر ان کی مدح کی ہے جو ایسے افعال خیر کو مستلزم ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ ان پر محض اس کا فضل و احسان ہے۔ تاکہ وہ خود پسندی کا شکار نہ ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جس نے ان پر احسان کیا تاکہ وہ ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ نوازے اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم محجوب نہیں ۔ بنابریں فرمایا ﴿ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے‘‘ یعنی وہ وسیع فضل و کرم اور بے پایاں احسان کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا ءکو وسیع فضل و کرم سے نوازتا ہے جس سے وہ اوروں کو نہیں نوازتا۔ مگر وہ علم رکھتا ہے کہ کون اس کے فضل کا مستحق ہے پس وہ اسی کو عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اصولی اور فروعی طور پر رسالت سے کسے نوازنا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [54]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF