Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
5
SuraName
تفسیر سورۂ مائدۃ
SegmentID
348
SegmentHeader
AyatText
{44} {إنَّا أنْزَلنا التوراةَ}: على موسى بن عمران عليه الصلاة والسلام {فيها هدىً}: يهدي إلى الإيمان والحقِّ ويَعْصِمُ من الضَّلالة، {ونورٌ} يُسْتَضاء به في ظُلَم الجهل والحيرة والشكوك والشُّبهات والشَّهوات؛ كما قال تعالى: {ولقد آتينا موسى وهارون الفرقان وضياءً وذكرى للمتقين}، {يحكُمُ بها} ـ بين الذين هادوا؛ أي: اليهود، في القضايا والفتاوى ـ {النبيُّون الذين أسلموا} لله وانقادوا لأوامره، الذين إسلامهم أعظم من إسلام غيرهم، وهم صفوة الله من العباد؛ فإذا كان هؤلاء النبيُّون الكرام والسادة للأنام، قد اقتدوا بها، وائتَمُّوا، ومشوا خلفها؛ فما الذي مَنَعَ هؤلاء الأراذل من اليهود من الاقتداء بها؟! وما الذي أوجب لهم أن ينبذوا أشرف ما فيها من الإيمان بمحمد - صلى الله عليه وسلم - الذي لا يُقبل عمل ظاهر وباطنٌ إلا بتلك العقيدة؟! هل لهم إمام في ذلك؟! نعم؛ لهم أئمة دأبهم التحريف وإقامة رياستهم ومناصبهم بين الناس والتأكُّل بكتمان الحقِّ وإظهار الباطل، أولئك أئمة الضَّلال الذين يدعون إلى النار. وقوله: {والرَّبَّانيُّون والأحبار}؛ أي: وكذلك يحكم بالتوراة للذين هادوا أئمة الدين من الربانيين؛ أي: العلماء العاملين المعلِّمين، الذين يربون الناس بأحسن تربية، ويسلكون معهم مسلك الأنبياء المشفقين، والأحبار؛ أي: العلماء الكبار الذين يُقتدَى بأقوالهم وتُرمَق آثارُهم ولهم لسانُ الصدق بين أممهم. وذلك الحكم الصادر منهم الموافق للحق {بما استُحْفِظوا من كتاب الله وكانوا عليه شهداء}؛ أي: بسبب أنَّ الله استحفظهم على كتابه، وجعلهم أمناء عليه، وهو أمانة عندهم، أوجب عليهم حفظه من الزيادة والنقصان والكتمان وتعليمه لمن لا يعلمه، وهم شهداء عليه بحيث إنّهم المرجوع إليهم فيه وفيما اشتبه على الناس منه؛ فالله تعالى قد حمَّل أهل العلم ما لم يحمِّله الجُهَّال، فيجب عليهم القيام بأعباء ما حُمِّلوا، وأن لا يقتدوا بالجُهَّال بالإخلادِ إلى البطالة والكسل، وأن لا يقتصِروا على مجرَّد العبادات القاصرة من أنواع الذِّكْر والصلاة والزَّكاة والحجِّ والصوم ونحو ذلك من الأمور التي إذا قام بها غير أهل العلم؛ سلموا ونجوا، وأما أهل العلم؛ فكما أنهم مطالبون بالقيام بما عليهم أنفسهم فإنهم مطالبون أن يعلِّموا الناس، وينبِّهوهم على ما يحتاجون إليه من أمور دينهم، خصوصاً الأمور الأصولية، والتي يكثر وقوعها، وأن لا يخشوا الناس، بل يخشون ربَّهم، ولهذا قال: {فلا تَخْشَوُا الناس واخْشَوْنِ ولا تَشْتَروا بآياتي ثمناً قليلاً}؛ فتكتموا الحقَّ، وتُظْهِروا الباطل لأجل متاع الدُّنيا القليل. وهذه الآفات إذا سلم منها العالم؛ فهو من توفيقه وسعادته؛ بأن يكون همه الاجتهاد في العلم والتعليم، ويعلم أنَّ الله قد استحفظه بما أودعه من العلم واستشهده عليه، وأن يكون خائفاً من ربِّه، ولا يمنعه خوف الناس وخشيتُهم من القيام بما هو لازمٌ له، وأن لا يُؤْثِرَ الدُّنيا على الدين؛ كما أنَّ علامة شقاوة العالم أن يكون مخلداً للبطالة، غير قائم بما أمر به، ولا مبالٍ بما استُحفظ عليه، قد أهمله وأضاعه، قد باع الدين بالدنيا، قد ارتشى في أحكامه، وأخذ المال على فتاويه، ولم يُعَلِّم عباد الله إلا بأجرة وجعالة؛ فهذا قد مَنَّ الله عليه بِمِنَّةٍ عظيمة كَفَرها، ودَفَعَ حَظًّا جسيماً محروماً منه غيره، فنسألك اللهمَّ علماً نافعاً وعملاً متقبّلاً، وأن ترزُقَنا العفو والعافية من كلِّ بلاء يا كريم. {ومَن لم يَحْكُمْ بما أنزل الله}: من الحقِّ المُبين، وحكمَ بالباطل الذي يعلمُهُ لغرض من أغراضِهِ الفاسدة؛ {فأولئك هم الكافرون}: فالحكم بغير ما أنزل الله، من أعمال أهل الكفر، وقد يكون كفراً ينقُل عن المِلَّة، وذلك إذا اعتقد حِلَّه وجوازه، وقد يكون كبيرةً من كبائر الذُّنوب، ومن أعمال الكفر؛ قد استحقَّ من فَعَلَه العذابَ الشديدَ.
AyatMeaning
[44] ﴿ اِنَّـاۤ٘ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ ﴾ ’’بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی۔‘‘ یعنی ہم نے موسیٰ بن عمرانu پر تورات نازل کی ﴿ فِیْهَا هُدًى ﴾ ’’جس میں ہدایت ہے۔‘‘ یعنی تورات ایمان اور حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے ﴿ وَّنُوْرٌ ﴾ ’’اور روشنی ہے۔‘‘ یعنی ظلم و جہالت، شک و حیرت اور شبہات و شہوات کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰؔى وَهٰرُوْنَ الْ٘فُرْقَانَ وَضِیَآءً وَّذِكْرًا لِّلْ٘مُتَّقِیْنَ﴾ (الانبیاء: 21؍48) ’’اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں فرق کرنے والی، روشنی عطا کرنے والی اور اہل تقویٰ کو نصیحت کرنے والی کتاب عطا کی۔‘‘ ﴿یَحْكُمُ بِهَا ﴾ ’’فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ‘‘ یعنی یہودیوں کے جھگڑوں اور ان کے فتاویٰ میں ﴿ النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ﴾ ’’پیغمبر جو فرماں بردار تھے‘‘ یعنی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کیا، اس کے احکامات کی اطاعت کی اور ان کا اسلام دیگر لوگوں کے اسلام سے زیادہ عظیم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے تھے۔ جب یہ انبیائے کرام جو مخلوق کے سردار ہیں تورات کو اپنا امام بناتے ہیں ، اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں تو یہودیوں کے ان رذیل لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور ان پر کس چیز نے واجب کیا ہے کہ وہ تورات کے بہترین حصے کو نظر انداز کر دیں جس میں حضرت محمد مصطفیe پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس عقیدے کو قبول کیے بغیر کوئی ظاہری اور باطنی عمل قابل قبول نہیں ۔ کیا اس بارے میں ان کے پاس کوئی راہنمائی ہے؟ ہاں ! ان کی راہنمائی کرنے والے راہنما موجود ہیں جو تحریف کرنے، لوگوں کے درمیان اپنی سرداری اور مناصب قائم رکھنے، کتمان حق کے ذریعے سے حرام مال کھانے اور اظہار باطل کے عادی ہیں ۔ یہ لوگ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ ﴿ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ﴾ ’’درویش اور عالم‘‘ یعنی اسی طرح یہودیوں کے ائمہ دین میں ربانی تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ (رَبَّانِیُّون) سے مراد باعمل علماء ہیں جو لوگوں کی بہترین تربیت کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا وہی مشفقانہ رویہ تھا جو انبیاء کرام کا ہوتا ہے (اَحْبَار) سے مراد وہ علمائے کبار ہیں جن کے قول کی اتباع کی جاتی ہے اور جن کے آثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کی طرف سے صادر ہونے والا یہ فیصلہ حق کے مطابق ہے ﴿ بِمَا اسْتُحْفِظُ٘وْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَؔكَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَؔ ﴾ ’’اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور وہ اس کی خبر گیری پر مقرر تھے‘‘ یعنی اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی، ان کو اپنی کتاب کا امین بنایا تھا اور یہ کتاب ان کے پاس امانت تھی اور اس میں کمی بیشی اور کتمان سے اس کی حفاظت کو اور بے علم لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کو ان پر واجب قرار دیا تھا... وہ اس کتاب پر گواہ ہیں کیونکہ وہی اس کتاب میں مندرج احکام کے بارے میں اور اس کی بابت لوگوں کے درمیان مشتبہ امور میں ان کے لیے مرجع ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل علم پر وہ ذمہ داری ڈالی ہے جو جہلا پر نہیں ڈالی اس لیے جس ذمہ داری کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے، احسن طریقے سے اس کو نبھانا ان پر واجب ہے اور یہ کہ بیکاری اور کسل مندی کو عادت بناتے ہوئے جہال کی پیروی نہ کریں ۔ نیز وہ مختلف انواع کے اذکار، نماز، زکٰوۃ ، حج ، روزہ وغیرہ مجرد عبادات ہی پر اقتصار نہ کریں جن کو قائم کر کے غیر اہل علم نجات پاتے ہیں ۔ اہل علم سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور انھیں ان دینی امور سے آگاہ کریں جن کے وہ محتاج ہیں ۔ خاص طور پر اصولی امور اور ایسے معاملات جو کثرت سے واقع ہوتے ہیں نیز یہ کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ صرف اپنے رب سے ڈریں ۔ بنابریں فرمایا ﴿ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو! اور میری آیات کے بدلے تھوڑا سا فائدہ حاصل نہ کرو‘‘ یعنی دنیا کی متاع قلیل کی خاطر حق کو چھپا کر باطل کا اظہار نہ کرو۔ اگر صاحب علم ان آفات سے محفوظ ہو جاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی سعادت اس امر میں ہے کہ علم و تعلیم میں جدوجہد اس کا مقصد رہے۔ یہ چیز ہمیشہ اس کے علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی امانت اس کے سپرد کر کے اس کی حفاظت اس کے ذمہ عائد کی ہے اور اس کو اس علم پر گواہ بنایا ہے۔ وہ صرف اپنے رب سے ڈرے، لوگوں کا ڈر اور خوف اسے لوازم علم کو قائم کرنے سے مانع نہ ہو۔ دین پر دنیا کو ترجیح نہ دے۔ اسی طرح کسی عالم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بے کاری کو اپنی عادت بنا لے اور جن چیزوں کا اسے حکم دیا گیا ہے ان کو قائم نہ کرے اور جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے اسے پورا نہ کرے۔ ایسے شخص نے علم کو بے کار اور ضائع کر دیا، دنیا کے بدلے دین کو فروخت کر ڈالا، اس کے فیصلوں میں رشوت لی اس کے فتووں میں مال سمیٹا اور اللہ کے بندوں کو اجرت لے کر علم سکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا جس کی اس نے ناشکری کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک عظیم نعمت عطا کی تھی، اس نے اس نعمت سے دوسروں کو محروم کر دیا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں ۔ اے الٰہ کریم ہمیں ہر مصیبت سے عفو اور عافیت عطا کر۔ ﴿ وَمَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے۔‘‘ یعنی جو کوئی واضح حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اپنی فاسد اغراض کی خاطر جان بوجھ کر باطل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ ﴾ ’’تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اہل کفر کا شیوہ ہے۔ اور بسا اوقات یہ ایسا کفر بن جاتا ہے جو اپنے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا جائز اور صحیح سمجھتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[44]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List