Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
5
SuraName
تفسیر سورۂ مائدۃ
SegmentID
347
SegmentHeader
AyatText
{38} السارق: هو مَن أخذ مال غيره المحترم خفية بغير رضاه، وهو من كبائر الذنوب الموجبة لترتُّب العقوبة الشنيعة، وهو قطع اليد اليمنى؛ كما هو في قراءة بعض الصحابة، وحدُّ اليد عند الإطلاق من الكوع؛ فإذا سَرَقَ؛ قُطِعَتْ يدُهُ من الكوع وحُسِمَتْ في زيت لتنسدَّ العروق فيقف الدم. ولكنَّ السنَّة قيَّدت عموم هذه الآية من عدة أوجه: منها الحرز؛ فإنه لا بدَّ أن تكون السرقة من حرز، وحرز كل مال ما يُحفظ به عادة؛ فلو سَرَقَ من غير حرزٍ؛ فلا قطع عليه. ومنها: أنه لا بدَّ أن يكون المسروق نصاباً، وهو ربع دينار أو ثلاثة دراهم أو ما يساوي أحدهما؛ فلو سرق دون ذلك؛ فلا قطع عليه، ولعل هذا يؤخذ من لفظ السرقة ومعناها؛ فإنَّ لفظ السرقة أخذ الشيء على وجهٍ لا يمكن الاحترازُ منه، وذلك أن يكون المال محرزاً؛ فلو كان غير مُحْرَزٍ؛ لم يكن ذلك سرقة شرعية. ومن الحكمة أيضاً أن لا تُقطع اليد في الشيء النَّزْر التافه، فلما كان لا بدَّ من التقدير؛ كان التقدير الشرعيُّ مخصِّصاً للكتاب. والحكمة في قطع اليد في السرقة: أنَّ ذلك حفظٌ للأموال واحتياطٌ لها وليقطع العضو الذي صدرت منه الجنايةُ. فإنْ عاد السارقُ؛ قُطعت رجله اليسرى، فإن عاد؛ فقيلَ: تُقطع يده اليسرى ثم رجله اليمنى. وقيلَ: يُحبس حتى يموت. وقوله: {جزاءً بما كسبا}؛ أي: ذلك القطع جزاء للسارق بما سرقه من أموال الناس {نكالاً من الله}؛ أي: تنكيلاً وترهيباً للسارق ولغيرِهِ؛ ليرتدعَ السُّرَّاق إذا علموا أنهم سيُقْطَعون إذا سرقوا. {والله عزيزٌ حكيم}؛ أي: عزَّ وحَكَم فقطع السارقَ.
AyatMeaning
[38] چور اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے کا قابل احترام مال، اس کی رضامندی کے بغیر خفیہ طور پر ہتھیاتا ہے۔ چوری کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جو بدترین سزا کا موجب ہے یعنی دایاں ہاتھ کاٹنا۔ جیسا کہ بعض صحابہy کی قراء ت میں آتا ہے۔ ہاتھ کا اطلاق کلائی کے جوڑ تک ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے اور اس کے بعد اسے تیل میں داغ دیا جائے تاکہ رگیں مسدود ہو جائیں اور خون رک جائے۔ سنت نبوی نے اس آیت کریمہ کے عموم کو متعدد پہلوؤں سے مقید کیا ہے۔ (۱) حفاظت: چوری کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو، یہاں مال کی حفاظت سے مراد وہ حفاظت ہے جو عادتاً کی جاتی ہے۔ چور نے اگر کسی ایسے مال کی چوری کی ہو جو حفاظت میں نہ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (۲) نصاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے مال مسروقہ کا نصاب ضروری ہے۔ یہ نصاب کم از کم ایک چوتھائی دینار یا تین درہم یا ان میں سے کسی ایک کے برابر۔ مال مسروقہ اگر اس نصاب سے کم ہو تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ شاید یہ لفظ سرقہ اور اس کے معنی سے ماخوذ ہے کیونکہ لفظ ’’سرقہ‘‘ سے مراد ہے کوئی چیز اس طریقے سے لینا جس سے احتراز ممکن نہ ہو اور یہ اسی وقت ہی ہوگا کہ مال کو حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہو۔ اگر مال کو حفاظت کے ساتھ نہ رکھا گیا تو اس مال کا لینا شرعی سرقہ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ تھوڑی اور حقیر سی شے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ قطع ید کے لیے کم ترین نصاب مقرر کرنا ضروری ہے، اس لیے نصاب شرعی ہی کتاب اللہ کی تخصیص کرنے والا ہو گا۔ چوری میں ہاتھ کاٹنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے مال محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس عضو کو بھی کٹ جانا چاہیے جس سے جرم صادر ہوا ہے۔ دایاں ہاتھ کاٹ دیے جانے کے بعد اگر چور دوبارہ چوری کا ارتکاب کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر پھر چوری کرے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے اور بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اس کو قید کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مر جائے۔ ﴿ جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا ﴾ ’’یہ بدلہ ہے اس کا جو انھوں نے کمایا‘‘ یعنی یہ قطع ید، چور کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے لوگوں کا مال چرایا ہے ﴿ نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ﴾ ’’یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے‘‘ یعنی یہ سزا چور اور دیگر لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہے کیونکہ چوروں کو جب معلوم ہو گا کہ چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ چوری سے باز آ جائیں گے ﴿ وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ زبردست، صاحب حکمت ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اس لیے اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[38]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List