Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
5
SuraName
تفسیر سورۂ مائدۃ
SegmentID
341
SegmentHeader
AyatText
{26} {قال} الله مجيباً لدعوة موسى: {فإنها محرَّمةٌ عليهم أربعين سنة يتيهون في الأرض}؛ أي: إن من عقوبتهم أن نحرِّم عليهم دخول هذه القرية التي [كتبها] الله [لهم] مدة أربعين سنةً، وتلك المدة أيضاً يتيهون في الأرض، لا يهتدون إلى طريق ولا يبقون مطمئنين. وهذه عقوبةٌ دنيويَّةٌ؛ لعل الله تعالى كفَّر بها عنهم ودفع عنهم عقوبةً أعظم منها. وفي هذا دليل على أن العقوبة على الذنب قد تكون بزوال نعمةٍ موجودةٍ أو دفع نعمةٍ قد انعقد سببُ وجودِها، أو تأخُّرها إلى وقت آخر، ولعل الحكمة في هذه المدة أن يموت أكثر هؤلاء الذين قالوا هذه المقالة الصادرة عن قلوب لا صَبْرَ فيها ولا ثباتَ، بل قد ألفت الاستعباد لعدُوِّها ولم تكن لها هممٌ ترقِّيها إلى ما فيه ارتقاؤها وعلوُّها، ولتظهر ناشئةٌ جديدةٌ تتربَّى عقولهم على طلبِ قهرِ الأعداء وعدم الاستعباد والذُّلِّ المانع من السعادة. ولما علم الله تعالى أن عبده موسى في غاية الرحمة على الخَلْق خصوصاً قومه، وأنه ربَّما رَقَّ لهم واحتملته الشفقةُ على الحزن عليهم في هذه العقوبة أو الدُّعاء لهم بزوالها، مع أن الله قد حتَّمها؛ قال: {فلا تأسَ على القوم الفاسقينَ}؛ أي: لا تأسَفْ عليهم ولا تحزَنْ؛ فإنهم قد فسقوا، وفِسْقُهم اقتضى وقوع ما نزل بهم لا ظلماً مِنَّا.
AyatMeaning
[26] ﴿ قَالَ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰu کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کردیا گیا ہے اور وہ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔‘‘ یعنی ان کی سزا یہ ہے کہ اس بستی میں ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ دی ہے، داخل ہونا چالیس برس تک ان پر حرام کر دیا گیا۔ نیز وہ اس مدت کے دوران زمین میں مارے مارے اور سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ وہ کسی طرف جانے کی راہ پائیں گے نہ کسی جگہ اطمینان سے ٹھہر سکیں گے۔ یہ دنیوی سزا تھی۔ شاید اس سزا کو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کا کفارہ بنا دیا اور ان سے وہ سزا دور کر دی جو اس سے بڑی سزا تھی۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ گناہ کی سزا کبھی کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ موجودہ نعمت زائل ہو جاتی ہے یا کسی عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے جس کے وجود کا سبب مہیا ہو۔ یا اس کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سال کی مدت مقرر کرنے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس مدت کے دوران میں یہ بات کہنے والے اکثر لوگ مر چکے ہوں گے جو صبر و ثبات سے محروم تھے بلکہ ان کے دل دشمن کی غلامی سے مالوف ہو گئے تھے بلکہ وہ ان بلند ارادوں ہی سے محروم تھے جو انھیں بلندیوں پر فائز کرتے تاکہ اس دوران میں نئی نسل کی عقل اور شعور تربیت پا لے، پھر وہ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے، غلامی سے آزاد ہونے اور اس ذلت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو سعادت سے مانع ہوتی ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا بندہ موسیٰ مخلوق پر بے حد رحیم ہے خاص طور پر اپنی قوم پر۔ بسا اوقات ان کے لیے ان کا دل بہت نرم پڑ جاتا تھا، ان کی یہ شفقت اس سزا پر ان کو مغموم کر دیتی یا اس مصیبت کے زائل ہونے کی دعا کرنے پر آمادہ کر دیتی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر فرمایا: ﴿ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْ٘فٰسِقِیْنَ﴾ ’’پس تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کر۔‘‘ یعنی ان پر افسوس کر نہ ان کے بارے غمزدہ ہو۔ یقینا انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور ان کی نافرمانی اسی سزا کا تقاضا کرتی تھی جو انھیں ملی ہے۔ یہ سزا ہماری طرف سے ظلم نہیں ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[26]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List