Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 339
- SegmentHeader
- AyatText
- {17} لما ذكر تعالى أخذ الميثاق على أهل الكتابين وأنَّهم لم يقوموا به بل نقضوه؛ ذَكَرَ أقوالهم الشنيعة، فَذَكَرَ قولَ النَّصارى، القول الذي ما قاله أحدٌ غيرهم، بأنَّ الله هو المسيح بن مريم، ووجه شُبهتهم أنَّه ولد من غير أبٍ، فاعتقدوا فيه هذا الاعتقاد الباطل، مع أن حوَّاء نظيره، خُلِقَتْ بلا أمٍّ، وآدم أولى منه خلق بلا أبٍ ولا أمٍّ؛ فهلاَّ ادَّعوا فيهما الإلهية كما ادَّعوها في المسيح! فدلَّ على أنَّ قولهم اتباع هوى من غير برهانٍ ولا شبهةٍ، فردَّ الله عليهم بأدلةٍ عقليَّةٍ واضحةٍ، فقال: {قُل فمن يملِكُ من الله شيئاً إن أراد أن يُهْلِكَ المسيح ابن مريم وأمَّه ومن في الأرض جميعاً}؛ فإذا كان المذكورون لا امتناع عندهم يمنَعُهم لو أراد الله أن يُهْلِكَهم ولا قدرة لهم على ذلك؛ دلَّ على بطلان إلهية من لا يمتنع من الإهلاك ولا في قوَّته شيء من الفكاك. ومن الأدلَّة أنَّ {لله} وحدَه {ملكُ السموات والأرض}، يتصرَّف فيهم بحكمِهِ الكونيِّ والشرعيِّ والجزائيِّ، وهم مملوكون مدبَّرون؛ فهل يَليقُ أن يكون المملوك العبد الفقير إلهاً معبوداً غنيًّا من كلِّ وجه؟! هذا من أعظم المحال، ولا وجه لاستغرابهم لخلق المسيح عيسى بن مريم من غير أبٍ؛ فإنَّ الله {يَخْلُقُ ما يشاءُ}: إن شاء منِ أبٍ وأمٍّ كسائر بني آدم وإن شاء من أب بلا أم كحواء، وإن شاء من أمٍّ بلا أبٍ كعيسى، وإن شاء من غير أبٍ ولا أمٍّ كآدم؛ فنوَّع خليقتَهَ تعالى بمشيئتِهِ النافذة التي لا يستعصي عليها شيءٌ، ولهذا قال: {واللهُ على كلِّ شيءٍ قديرٌ}.
- AyatMeaning
- [17] اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے عہد لینے اور ان کے نقض عہد کا ذکر کرنے کے بعد ان کے اقوال قبیحہ کا ذکر فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے قول کا ذکر فرمایا اور یہ بات نصاریٰ سے پہلے کسی نے نہیں کہی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے۔ اور ان کے شبہ کا سبب یہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، بنابریں یہ اعتقاد باطل ان کے اندر در آیا۔ حالانکہ جناب حوا کی تخلیق اس کی نظیر ہے جن کو بغیر ماں کے پیدا کیا گیا اور اس لحاظ سے جناب آدم تو الوہیت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔ کیا انھوں نے آدمu اور جناب حوا کے بارے میں اسی طرح الوہیت کا دعویٰ کیا ہے جس طرح انھوں نے مسیحu کے بارے میں کیا؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا حضرت مسیح کی الوہیت کا دعوی بغیر کسی برہان کے خواہش نفس کی پیروی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح عقلی دلائل سے ان کے اس قول باطل کا رد کیا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿قُ٘لْ فَ٘مَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْـًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْ٘مَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’فرما دیجیے، پس کس کا بس چل سکتا ہے اللہ کے آگے کچھ بھی، اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور تمام اہل زمین کو‘‘ چونکہ اگر اللہ تعالیٰ ان مذکور لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے تو ان کے پاس اپنے آپ کو بچانے کی قدرت اور طاقت نہیں۔ اس لیے یہ اس ہستی کی الوہیت کے بطلان کی دلیل ہے جو اپنے آپ کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتی اور نہ چھڑا سکتی ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے ﴿لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا﴾ ’’ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے۔‘‘ پس وہ ان میں تکوینی ، شرعی اور جزائی احکام کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے وہ سب مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیر کرتا ہے۔ کیا مملوک اور بندۂ محتاج کے لائق ہے کہ وہ الٰہ بن جائے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہو؟.... یہ سب سے بڑا محال ہے۔ عیسیٰu کا بغیر باپ کے متولد ہونا کوئی انہونی اور تعجب خیز بات نہیں ﴿ یَخْلُ٘قُ مَا یَشَآءُ﴾ ’’وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔‘‘ چاہے تو ماں اور باپ کے ذریعے سے پیدا کرے، جیسا کہ تمام بنی آدم کی تخلیق ہوئی ہے۔ چاہے تو بغیر ماں کے، صرف باپ سے پیدا کرے جیسے حضرت حوا کا معاملہ ہے۔ چاہے تو کسی کو بغیر باپ کے، ماں سے پیدا کرے، جیسے حضرت عیسیٰu کی تخلیق ہوئی اور چاہے تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کرے، جیسے حضرت آدم کی پیدائش ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت نافذہ سے اپنی مخلوق کو الگ الگ انداز سے پیدا فرمایا جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ۔ بنابریں فرمایا :﴿وَاللّٰهُ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [17]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF