Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 336
- SegmentHeader
- AyatText
- {13} فكأنه قيل: ليت شعري! ماذا فعلوا؟ وهل وفوا بما عاهدوا الله عليه أم نكثوا؟ فبيَّن أنهم نقضوا ذلك، فقال: {فبما نَقْضِهِم ميثاقَهم}؛ أي: بسببه عاقبناهم بعدَّة عقوبات: الأولى: أنّا {لَعَنَّاهم}؛ أي: طردناهم وأبعدناهم من رحمتنا، حيث أغلقوا على أنفسهم أبواب الرحمة، ولم يقوموا بالعهد الذي أخذ عليهم، الذي هو سببها الأعظم. الثانية: قوله: {وجَعَلْنا قلوبَهم قاسيةً}؛ أي: غليظة لا تُجدي فيها المواعظ ولا تنفعُها الآيات والنُّذر؛ فلا يرغِّبهم تشويقٌ ولا يزعجهم تخويفٌ، وهذا من أعظم العقوبات على العبد؛ أن يكون قلبُه بهذه الصفة التي لا يفيده الهُدى والخيرُ إلاَّ شرًّا. الثالثة: أنهم يحرِّفون الكلم من بعد مواضعِهِ؛ أي: ابتُلوا بالتغيير والتبديل، فيجعلون للكَلِم الذي أراد الله، معنىً غير ما أراده الله ولا رسوله. الرابعة: أنَّهم {نَسوا حظًّا مما ذُكِّروا به }؛ فإنَّهم ذُكِّروا بالتوراة وبما أنزل الله على موسى فنسوا حظًّا منه، وهذا شاملٌ لنسيان علمه، وأنهم نسوه وضاع عنهم ولم يوجد كثيرٌ مما أنساهم الله إياه عقوبةً منه لهم، وشاملٌ لنسيان العمل الذي هو الترك، فلم يوفَّقوا للقيام بما أمروا به. ويستدلُّ بهذا على أهل الكتاب بإنكارهم بعض الذي قد ذُكِرَ في كتابهم أو وقع في زمانهم أنه مما نسوه. الخامسة: الخيانة المستمرَّة التي {لا تزال تطَّلِع على خائنةٍ منهم}؛ أي: خيانةٍ لله ولعباده المؤمنين. ومن أعظم الخيانة منهم كتمهم عن من يَعِظُهم ويُحْسِن فيهم الظنَّ الحقَّ، وإبقاؤهم على كفرهم؛ فهذه خيانة عظيمة. وهذه الخصال الذميمة حاصلة لكلِّ من اتصف بصفاتهم، فكلُّ من لم يَقُمْ بما أمر الله به وأخذ به عليه الالتزام؛ كان له نصيبٌ من اللَّعنة، وقسوة القلب، والابتلاء بتحريف الكلم، وأنه لا يوفَّق للصواب، ونسيان حظٍّ مما ذُكِّر به، وأنَّه لا بدَّ أن يُبتلى بالخيانة، نسأل الله العافية. وسمى الله تعالى ما ذُكِّروا به حظًّا؛ لأنَّه هو أعظم الحظوظ، وما عداه؛ فإنَّما هي حظوظ دنيويَّة؛ كما قال تعالى: {فَخَرَجَ على قومه في زينتِهِ قال الذين يريدونَ الحياةَ الدُّنيا يا ليتَ لنا مثل ما أوتي قارونَ إنَّه لذو حَظٍّ عظيم}، وقال في الحظِّ النافع: {وما يُلَقَّاها إلاَّ الذين صَبَروا وما يُلَقَّاها إلا ذو حَظٍّ عظيم}. وقوله: {إلَّا قليلاً منهم}؛ أي: فإنَّهم وفوا بما عاهدوا الله عليه، فوفَّقهم وهداهُم للصِّراط المستقيم، {فاعفُ عنهم واصْفَحْ}؛ أي: لا تؤاخِذْهم بما يصدُرُ منهم من الأذى الذي يقتضي أن يُعفى عنهم، واصفحْ فإنَّ ذلك من الإحسان. {والله يحبُّ المحسنينَ}: والإحسانُ هو أن تَعْبُدَ الله كأنَّك تراه؛ فإن لم تكن تراه؛ فإنَّه يراك، وفي حقِّ المخلوقين بذل النفع الدينيّ والدنيويّ لهم.
- AyatMeaning
- [13] گویا یوں کہا گیا ہے کہ ’’ کاش ہمیں بھی معلوم ہو تا کہ انھوں نے کیا کیا؟ کیا انھوں نے اس عہد کو پورا کیا جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا یا اس عہد کو توڑ دیا؟‘‘ پس اللہ نے واضح کر دیا کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ کیے گئے اس عہد کو توڑ دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّؔیْثَاقَهُمْ ﴾ ’’تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب۔‘‘ یعنی ان کے نقض عہد کے سبب سے ہم نے ان کو متعدد سزائیں دیں ۔ (۱) ﴿لَعَنّٰهُمْ ﴾ ’’ہم نے ان پر لعنت کی۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو دھتکار کر اپنی رحمت سے دور کر دیا کیونکہ انھوں نے اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کر لیے اور انھوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (۲) ﴿وَجَعَلْنَا قُ٘لُوْبَهُمْ قٰسِیَةً﴾ ’’اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔‘‘ یعنی ہم نے ان کو پتھر دل بنا دیا، پس وعظ و نصیحت ان کے کسی کام آ سکتے ہیں نہ آیات اور نہ ہی برے انجام سے ڈرانے والے انھیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ کوئی شوق انھیں ترغیب دے سکتا ہے نہ کوئی خوف ان کو یہ عہد پورا کرنے کے لیے بے قرار کر سکتا ہے۔ بندے کے لیے یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ اس کے دل کی یہ کیفیت ہو جائے کہ ہدایت اور بھلائی بھی اس پر برا اثر کریں ۔ (۳) ﴿یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ﴾ ’’یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ کلام اللہ میں تغیر و تبدل کے بھی مرتکب ہوئے، چنانچہ انھوں نے کلام الٰہی کے اس معنی کو، جو اللہ تعالیٰ کی مراد تھا، بدل کر وہ معنی بنا دیا جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ تھا۔ (۴) ﴿وَنَسُوْا حَظًّا مِّؔمَّؔا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖ﴾ ’’اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے۔‘‘ انھیں تورات اور ان تعلیمات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی جو موسیٰu پر نازل کی گئی تھیں مگر انھوں نے ان کو فراموش کر دیا۔ یہ اس بات کو بھی شامل ہے کہ انھوں نے جناب موسیٰu کے علم کو فراموش کر دیا بنابریں علم ان سے ضائع ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ بہت سا علم ناپید ہو گیا۔ یہ آیت کریمہ نسیان عمل کو بھی شامل ہے جو ترک عمل کا نتیجہ ہے، پس جس چیز کا انھیں حکم دیا گیا تھا اس پر عمل کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوئی۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے بعض ان امور کا جو انکار کیا جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے یا ان کے زمانے میں واقع ہوئے، یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن کو انھوں نے فراموش کیا۔ (۵) دائمی خیانت، جس کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَا تَزَالُ تَ٘طَّ٘لِعُ عَلٰى خَآىِٕنَةٍ مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان کی خیانت پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے بندوں کے ساتھ خیانت۔ اور ان کی سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ انھوں نے ان لوگوں سے حق کو چھپایا جو ان کو نصیحت کرتے تھے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے ۔ اور ان کو ان کے کفر پر باقی رکھنا۔ پس یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ اور جو کوئی ان صفات سے متصف ہوتا ہے اس میں یہ مذموم خصائل پائے جاتے ہیں ۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور ان کا التزام نہیں کرتا تو اس لعنت، قساوت قلبی اور کلام الٰہی کی تحریف میں وہ بھی حصہ دار ہوتا ہے۔ اس کو بھی حق اور صواب کی توفیق نہیں ملتی وہ بھی ان امور کو فراموش کرنے کا مرتکب ہوتا ہے جن کی اسے یاد دہانی کروائی گئی تھی اور ایسے شخص کا خیانت میں مبتلا ہونا بھی یقینی ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلب گار ہیں ۔ جس امر کی انھیں یاد دہانی کروائی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو﴿حَظًّا ﴾ ’’حصہ، نصیبہ‘‘ کے نام سے اس لیے موسوم کیا ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا حظ ہے اس کے علاوہ دیگر تمام حظوظ دنیاوی حظوظ ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰؔلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (القصص: 28؍79) ’’قارون بڑی سج دھج کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے طالب تھے، کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ دیا گیا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ وہ تو بہت بڑے نصیبے والا ہے۔‘‘ اور حظ نافع کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا١ۚ وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ (حم السجدۃ: 41؍35)’’یہ بات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس سے وہی لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو بہت بڑے نصیبے والے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْهُمْ ﴾ ’’تھوڑے آدمیوں کے سوا۔‘‘ یعنی وہ لوگ بہت کم تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق سے نوازا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَ٘حْ﴾ ’’پس آپ ان کی خطائیں معاف کردیں اور ان سے درگزر فرمائیں ۔‘‘ ان کی طرف سے آپ کو جو بھی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو معاف کر دینے کے قابل ہو اسے معاف کر دیا کریں ۔ اور ان سے درگزر کیجیے کیونکہ یہ بھلائی ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ اور احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اپنے آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ تو تجھے دیکھ رہا ہے اور مخلوق کے حق میں احسان یہ ہے کہ تو انھیں دینی اور دنیاوی فائدے سے نوازے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [13]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF