Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 330
- SegmentHeader
- AyatText
- {5} كرَّرَ تعالى إحلال الطيبات لبيان الامتنان، ودعوةً للعباد إلى شكره والإكثار من ذِكره؛ حيث أباح لهم ما تدعوهم الحاجةُ إليه، ويحصُل لهم الانتفاع به من الطيبات. {وطعام الذين أوتوا الكتاب حِلٌّ لكم}؛ أي: ذبائح اليهود والنَّصارى حلال لكم يا معشر المسلمين دون باقي الكفار فإنَّ ذبائحهم لا تحلُّ للمسلمين، وذلك لأنَّ أهل الكتاب ينتسِبون إلى الأنبياء والكتب، وقد اتَّفق الرسل كلُّهم على تحريم الذَّبح لغير الله؛ لأنه شركٌ؛ فاليهود والنصارى يتديَّنون بتحريم الذَّبح لغير الله؛ فلذلك أبيحت ذبائحهم دون غيرهم. والدليل على أن المراد بطعامهم ذبائحهم: أنَّ الطعام الذي ليس من الذبائح؛ كالحبوب والثمارِ، ليس لأهل الكتاب فيه خصوصيَّةٌ، بل يُباح ذلك، ولو كان من طعام غيرهم. وأيضاً؛ فإنه أضاف الطعام إليهم، فدل ذلك على أنه كان طعاماً بسبب ذبحهم، ولا يقال: إنَّ ذلك للتمليك، وإنَّ المراد الطعام الذي يملكون؛ لأنَّ هذا لا يُباح على وجه الغصب ولا من المسلمين. {وطعامكم}: أيُّها المسلمون، {حلٌّ لهم}؛ أي: يحلُّ لكم أن تطعموهم إياه. {و} أحِلَّ لكم {المحصناتُ}؛ أي: الحرائر العفيفات {من المؤمنات}؛ والحرائر العفيفات {من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم}؛ أي: من اليهود والنصارى، وهذا مخصِّص لقوله تعالى: {ولا تنكِحوا المشركاتِ حتَّى يؤمنَّ}، ومفهوم الآية أنَّ الأرقَّاء من المؤمنات لا يباح نكاحهنَّ للأحرار وهو كذلك، وأما الكتابيات فعلى كل حال لا يبحن ولا يجوز نكاحهن للأحرار مطلقاً؛ لقوله تعالى: {من فتياتِكُم المؤمنات}. وأما المسلماتُ إذا كنَّ رقيقات؛ فإنه لا يجوز للأحرار نكاحُهُنَّ إلا بشرطين: عدم الطَّوْل، وخوف العَنَت. وأما الفاجرات غير العفيفات عن الزِّنا؛ فلا يُباح نكاحهنَّ، سواء كنَّ مسلماتٍ أو كتابياتٍ حتى يَتُبْنَ؛ لقولِهِ تعالى: {الزَّاني لا يَنكِحُ إلا زانيةً أو مشركةً ... } الآية. وقوله: {إذا آتيتُموهنَّ أجورَهنَّ}؛ أي: أبحنا لكم نكاحَهُنَّ إذا أعطيتُموهن مهورهنَّ؛ فمن عَزَمَ على أن لا يؤتيها مهرها؛ فإنها لا تحلُّ له، وأمر بإيتائها إذا كانت رشيدةً تصلح للإيتاء، وإلاَّ أعطاه الزوج لوليِّها، وإضافة الأجور إليهنَّ دليلٌ على أنَّ المرأة تملك جميع مهرِها، وليس لأحدٍ منه شيءٌ؛ إلاَّ ما سمحت به لزوجها أو وليِّها أو غيرهما. {محصِنين غير مسافحين}؛ أي: حالة كونِكم أيُّها الأزواج محصنين لنسائِكم بسبب حفظكم لفروجِكم عن غيرهنَّ، {غير مسافِحين}؛ أي: زانين مع كلِّ أحدٍ، {ولا متَّخذي أخدان}: وهو الزِّنا مع العشيقات؛ لأنَّ الزُّناة في الجاهلية منهم من يزني مع من كان؛ فهذا المسافح، ومنهم من يزني مع خدنه ومحبِّه؛ فأخبر الله تعالى أن ذلك كله ينافي العفَّة، وأن شرطَ التزوُّج أن يكون الرجل عفيفاً عن الزِّنا. وقوله تعالى: {ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله}؛ أي: ومن كفر بالله تعالى وما يجب الإيمان به من كتبه ورسله أو شيء من الشرائع؛ فقد حَبِطَ عملُه؛ بشرط أن يموت على كفره؛ كما قال تعالى: {ومن يَرْتَدِدْ منكم عن دينِهِ فيَمُتْ وهو كافرٌ فأولئك حبطتْ أعمالهم في الدُّنيا والآخرة}. {وهو في الآخرة من الخاسرين}؛ أي: الذين خسروا أنفسَهم وأموالهم وأهليهم يوم القيامة، وحصلوا على الشقاوة الأبديَّة.
- AyatMeaning
- [5] اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے طیبات کی حلت کو مکرر بیان فرمایا۔ اس میں بندوں کو اس کا شکر ادا کرنے اور کثرت سے ذکر کرنے کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ان چیزوں کو مباح فرمایا جن کے وہ سخت محتاج تھے اور وہ ان طیبات سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔ ﴿وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ٘ لَّـكُمْ ﴾ ’’اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔‘‘ یعنی اے مسلمانو! تمھارے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذبیحے حلال ہیں اور باقی کفار کے ذبیحے حلال نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب انبیائے کرام اور کتابوں سے منسوب ہیں اور تمام انبیائے کرام غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی تحریم پر متفق ہیں کیونکہ یہ شرک ہے۔ پس یہود و نصاریٰ بھی غیر اللہ کے نام پر ذبیحے کی حرمت کے قائل ہیں ۔ اس لیے دیگر کفار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے۔ اور یہاں ان کے طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ طعام جو ذبیحہ کے زمرے میں نہیں آتا ، مثلاً: غلہ اور پھل وغیرہ تو اس میں اہل کتاب کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ غلہ اور پھل تو حلال ہیں ، اگرچہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کا طعام ہوں ۔ نیز طعام کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان کا ذبیحہ ہونے کے سبب سے ’’ان کا کھانا‘‘ ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اضافت تملیک کے لیے ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہ کھانا ہے، جس کے وہ مالک ہیں ۔ کیونکہ غصب کے پہلو سے یہ بھی حلال نہیں خواہ مسلمانوں ہی کا ہو۔ ﴿ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ٘ لَّهُمْ﴾ ’’اور تمھارا کھانا ان کو حلال ہے۔‘‘ اے مسلمانو! اگر تم اپنا کھانا اہل کتاب کو کھلاؤ تو یہ ان کے لیے حلال ہے ۔﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ ’’آزاد اور عفت ماب مومن عورتیں (تمھارے لیے حلال ہیں )‘‘ ﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ ’’اور آزاد پاک دامن اہل کتاب کی عورتیں ۔‘‘ یعنی یہود و نصاریٰ کی آزاد عفت ماب عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں ۔ اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تخصیص کرتی ہے ﴿وَلَا تَنْكِحُوا الْ٘مُشْ٘رِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ ﴾ (البقرہ: 2؍221) ’’اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔‘‘ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ مومن لونڈیوں کا آزاد مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ۔ لیکن اہل کتاب لونڈیوں کا نکاح، آزاد مومن مردوں کے ساتھ مطلقا حرام ہے۔ اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿مِنْ فَتَیٰتِكُمُ الْ٘مُؤْمِنٰتِ ﴾ (النساء: 4؍25) ’’اور ان لونڈیوں سے نکاح کر لو جو مومن ہیں ۔‘‘ اگر مسلمان عورتیں لونڈیاں ہوں تو آزاد مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کے لیے دو شرائط ہیں ۔ (۱) مرد آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ (۲) عدم نکاح کی صورت میں اسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو۔ رہی فاجر عورتیں ، جو زنا سے نہیں بچتیں ، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں جب تک کہ وہ حرام کاری سے تائب نہ ہو جائیں ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْ٘رِكَةً﴾ (النور: 24؍3) ’’زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانی عورت یا مشرک عورت کے ساتھ ہی۔‘‘ ﴿اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ﴾ ’’جبکہ ان کا مہر دے دو۔‘‘ یعنی جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ہم نے ان کے ساتھ تمھارا نکاح جائز قرار دے دیا ہے۔ اور جس کا یہ ارادہ ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ اگر عورت سمجھ دار ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خود اسے مہر ادا کیا جائے ورنہ شوہر اس کے سرپرست کو مہر ادا کرے۔ حق مہر کی عورتوں کی طرف اضافت دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے تمام حق مہر کی خود مالک ہوتی ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ۔ سوائے اس کے کہ عورت خود اپنے شوہر کو یا اپنے ولی (سرپرست) وغیرہ کو یہ مہر عطا کر دے۔ ﴿مُحْصِنِیْنَ ﴾ ’’اور عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔‘‘ یعنی اے شوہرو! اس حال میں کہ تم اپنی بیویوں کی عفت کی حفاظت کر کے ان کو پاک باز رکھو ﴿غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ﴾ ’’نہ کہ اس حال میں کہ تم ہر ایک کے ساتھ زنا کرتے پھرو۔‘‘ ﴿وَلَا مُتَّؔخِذِیْۤ اَخْدَانٍ﴾ اور نہ اس حالت میں کہ تم اپنی معشوقاؤں کے ساتھ بدکاری کرو (اخدان) سے مراد ہے معشوقاؤں کے ساتھ زنا کرنا۔ زمانۂ جاہلیت میں زناکاروں کی دو اقسام تھیں : (۱) کسی بھی عورت کے ساتھ زنا کرنے والے ۔ ان کو ﴿مُسٰفِحِیْنَ ﴾ کہاجاتا ہے۔ (۲) صرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والے۔ یہ ﴿اَخْدَانٍ﴾ ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ دونوں صورتیں پاک دامنی کے منافی ہیں اور یہ کہ نکاح کی شرط یہ ہے کہ مرد زناکاری سے دامن بچانے والا ہو۔ ﴿وَمَنْ یَّكْ٘فُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ﴾ ’’اور جو منکر ہوا ایمان سے تو ضائع ہو گئے عمل اس کے‘‘ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان چیزوں کے ساتھ کفر کرتا ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے ، مثلاً: اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور اس کے انبیاء و رسلo اور شریعت کے بعض امور... اور وہ اسی کفر کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ﴾ (البقرۃ: 2؍217) ’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے اور وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔‘‘ ﴿وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰؔسِرِیْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘ یعنی ان کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو قیامت کے روز، اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہوں گے۔ اور ابدی بدبختی ان کا نصیب بنے گی۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [5]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF