Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 327
- SegmentHeader
- AyatText
- {2} يقول تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا لا تُحِلُّوا شعائر الله}؛ أي: محرَّماته التي أمركم بتعظيمها وعدم فعلها؛ فالنهي يشمَل النهي عن فعلها والنهي عن اعتقاد حِلِّها؛ فهو يشمل النهي عن فعل القبيح وعن اعتقاده، ويدخل في ذلك النهي عن محرَّمات الإحرام ومحرَّمات الحرم، ويدخُل في ذلك ما نصَّ عليه بقولِهِ: {ولا الشَّهْرَ الحرام}؛ أي: لا تنتهكوه بالقتال فيه وغيره من أنواع الظلم؛ كما قال تعالى: {إنَّ عدَّة الشُّهورِ عند الله اثنا عشَرَ شهراً في كتاب الله يوم خَلَقَ السمواتِ والأرضَ منها أربعةٌ حُرُمٌ ذلك الدِّين القيم فلا تظلموا فيهن أنفسكم}. والجمهور من العلماء على أنَّ القتال في الأشهر الحُرُم منسوخٌ بقوله تعالى: {فإذا انْسَلَخَ الأشهرُ الحُرُم فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم}، وغير ذلك من العمومات التي فيها الأمرُ بقتال الكفار مطلقاً والوعيدُ في التخلُّف عن قتالهم مطلقاً، وبأنَّ النبي - صلى الله عليه وسلم - قاتل أهل الطائف في ذي القعدة، وهو من الأشهر الحرم. وقال آخرون: إن النهي عن القتال في الأشهر الحُرُم غير منسوخ لهذه الآية وغيرها مما فيه النهي عن ذلك بخصوصه، وحملوا النُّصوص المطلقة الواردة على ذلك وقالوا: المُطْلَق يُحْمَل على المقيَّد. وفصَّل بعضهم فقال: لا يجوز ابتداء القتال في الأشهر الحرم، وأمَّا استدامتُهُ وتكميلُه إذا كان أوله في غيرها؛ فإنه يجوز، وحملوا قتال النبي - صلى الله عليه وسلم - لأهل الطائف على ذلك؛ لأنَّ أول قتالهم في حنين في شوَّال. وكل هذا في القتال الذي ليس المقصود منه الدفع، فأمَّا قتال الدفع إذا ابتدأ الكفار المسلمين بالقتال؛ فإنه يجوز للمسلمين القتال دفعاً عن أنفسهم في الشهر الحرام وغيره بإجماع العلماء. وقوله: {ولا الهديَ ولا القلائد}؛ أي: ولا تُحِلُّوا الهدي الذي يُهدى إلى بيت الله في حجٍّ أو عمرة أو غيرهما من نَعَم وغيرها؛ فلا تصدُّوه عن الوصول إلى مَحِلِّه، ولا تأخذوه بسرقة أو غيرها، ولا تقصِّروا به أو تحمِّلوه مالا يطيق خوفاً من تلفه قبل وصوله إلى مَحِلِّه، بل عظِّموه وعظِّموا من جاء به. {ولا القلائد}: هذا نوع خاص من أنواع الهدي، وهو الهدي الذي يُفْتَلُ له قلائد أو عُرىً، فيجعل في أعناقه؛ إظهاراً لشعائر الله، وحملاً للناس على الاقتداء، وتعليماً لهم للسنة، وليُعْرَفَ أنه هديٌ فَيُحْتَرم، ولهذا كان تقليد الهدي من السنن والشعائر المسنونة. {ولا آمِّينَ البيتَ الحرام}؛ أي: قاصدين له، {يبتغون فضلاً من ربِّهم ورضواناً}؛ أي: من قَصَدَ هذا البيت الحرام، وقَصْدُهُ فضلُ الله بالتجارة والمكاسب المباحة، أو قصدُهُ رضوانُ الله بحجِّهِ وعمرتِهِ والطواف به والصلاة وغيرها من أنواع العبادات؛ فلا تتعرَّضوا له بسوءٍ ولا تُهينوه، بل أكرِموه وعظِّموا الوافدين الزائرين لبيت ربِّكم. ودخل في هذا الأمرِ الأمرُ بتأمين الطرق الموصلة إلى بيت الله، وجعل القاصدين له مطمئنِّين مستريحين غير خائفين على أنفسهم من القتل فما دونهَ ولا على أموالهم من المَكْس والنَّهب ونحو ذلك. وهذه الآية الكريمة مخصوصة بقوله تعالى: {يا أيُّها الذين آمنوا إنَّما المشرِكون نَجَسٌ فلا يَقْرَبوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}؛ فالمشرِكُ لا يمكَّنُ من الدخول إلى الحرم. والتخصيص في هذه الآية بالنهي عن التعرُّض لمن قَصَدَ البيت ابتغاء فضل الله أو رضوانه يدلُّ على أنَّ مَن قَصَدَهُ لِيُلْحِدَ فيه بالمعاصي؛ فإنَّ من تمام احترام الحرم صدَّ مَن هذه حاله عن الإفساد ببيت الله؛ كما قال تعالى: {ومَن يُرِدْ فيه بإلحادٍ بظُلمٍ نُذِقْهُ من عذابٍ أليم}. ولما نهاهم عن الصيد في حال الإحرام؛ قال: {وإذا حللتُم فاصْطادوا}؛ أي: إذا حللتم من الإحرام بالحجِّ والعمرة، [وخرجتم من الحرم]؛ حلَّ لكم الاصطياد، وزال ذلك التحريم، والأمر بعد التحريم يَرُدُّ الأشياء إلى ما كانت عليه من قبل. {ولا يَجْرِمَنَّكُم شَنآنُ قوم أن صدُّوكم عن المسجد الحرام أن تعتدوا}؛ أي: لا يحملنَّكم بغض قوم وعداوتهم واعتداؤهم عليكم حيث صدُّوكم عن المسجد على الاعتداء عليهم طلباً للاشتفاء منهم؛ فإنَّ العبد عليه أن يلتزمَ أمر الله ويسلك طريق العدل، ولو جُنِيَ عليه أو ظُلِمَ واعْتُدِيَ عليه؛ فلا يَحِلُّ له أن يكذِبَ على من كذب عليه أو يخون مَن خانه. {وتعاوَنوا على البِرِّ والتَّقوى}؛ أي: ليُعِنْ بعضكم بعضاً على البرِّ، وهو اسم جامع لكل ما يحبُّه الله ويرضاه من الأعمال الظاهرة والباطنة من حقوق الله وحقوق الآدميين، والتقوى في هذا الموضع اسم جامع لِتَرْكِ كلِّ ما يكرهه الله ورسوله من الأعمال الظاهرة والباطنة، وكل خصلة من خصال الخير المأمور بفعلها، أو خصلةٍ من خصال الشرِّ المأمور بتركها؛ فإن العبد مأمورٌ بفعلها بنفسه وبمعاونة غيره من إخوانه المؤمنين عليها بكلِّ قول يَبعث عليها وينشِّطُ لها وبكل فعل كذلك. {ولا تعاونَوا على الإثم}: وهو التَّجَرِّي على المعاصي التي يأثم صاحبُها ويُحَرَّجُ، {والعدوان}: وهو التعدِّي على الخلق في دمائهم وأموالهم وأعراضهم؛ فكلُّ معصية وظلم يجب على العبد كفُّ نفسِهِ عنه، ثم إعانة غيره على تركه. {واتقوا الله إن الله شديدُ العقاب}: على من عصاه وتجرَّأ على محارِمِه؛ فاحذروا المحارمَ؛ لئلا يحلَّ بكم عقابُه العاجل والآجل.
- AyatMeaning
- [2] ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ ﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان محرمات کو حلال نہ ٹھہرا لو جن کی تعظیم کا اور ان کے عدم فعل کا اس نے تمھیں حکم دیا ہے۔ پس یہ ممانعت، ان کے فعل کی ممانعت اور ان کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کی ممانعت پر مشتمل ہے، یعنی یہ ممانعت فعل قبیح اور اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کو شامل ہے اس ممانعت میں محرمات احرام اور محرمات حرم بھی داخل ہیں ۔ اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آتا ہے ﴿وَلَا الشَّ٘هْرَ الْحَرَامَ ﴾ ’’اور نہ ادب کے مہینے کی۔‘‘ یعنی حرمت کے مہینے میں لڑائی اور دیگر مظالم کا ارتکاب کر کے اس کی ہتک حرمت نہ کرو۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْؔ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؔ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ﴾ (التوبۃ: 9؍36) ’’بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں ، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں ۔ یہی مضبوط دین ہے۔ تم ان مہینوں میں ناحق لڑائی کر کے اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔‘‘ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿فَاِذَا انْ٘سَلَ٘خَ الْاَشْ٘هُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْ٘مُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ ﴾ (التوبۃ: 9؍5) ’’جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو۔‘‘اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو عموم پر دلالت کرتی ہیں جن میں کفار کے ساتھ مطلق قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس قتال سے پیچھے رہ جانے پر وعید سنائی ہے۔ نیز نبی اکرمe نے ذیقعد کے مہینے میں اہل طائف کے خلاف جنگ کی اور ذی قعد حرام مہینوں میں سے ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی کی ممانعت منسوخ نہیں ہے اس کی دلیل یہی مذکورہ آیت کریمہ ہے۔ جس میں خاص طور پر لڑائی کی ممانعت کی گئی ہے اور انھوں نے اس بارے میں وارد مطلق نصوص کو مقید پر محمول کیا ہے۔ اور بعض علماء نے اس میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں ، البتہ اگر جنگ پہلے سے جاری ہو جبکہ اس کی ابتدا حلال مہینوں میں ہوئی ہو تو حرمت کے مہینوں میں اس کی تکمیل جائز ہے اور انھوں نے اہل طائف کے خلاف رسول اللہe کی جنگ کو اسی پر محمول کیا ہے۔ کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کی ابتدا حنین میں ہوئی جو شوال کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یہ سب اس جنگ کے بارے میں ہے جس میں مدافعت مقصود نہ ہو۔ جہاں تک دفاعی جنگ کا معاملہ ہے جبکہ وہ کفار کی طرف سے شروع کی گئی ہو تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ لڑنا جائز ہے۔ اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿وَلَا الْهَدْیَ ﴾ ’’اور نہ قربانی کے جانوروں کی۔‘‘ یعنی تم اس ﴿الْهَدْیَ ﴾ ’’قربانی‘‘ کو جو حج یا عمرہ یا دیگر ایام میں بیت اللہ کو بھیجی جا رہی ہو، حلال نہ ٹھہرا لو۔ اس کو قربان گاہ تک پہنچنے سے مت روکو۔ نہ اسے چوری وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ نہ اس کے بارے میں کوتاہی کرو اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادو۔ مبادا کہ وہ قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہو جائے بلکہ اس ہدی کی اور اس کو لانے والے کی تعظیم کرو۔ ﴿وَلَا الْقَلَآىِٕدَ ﴾ ’’اور نہ ان جانوروں کی (جو اللہ کی راہ میں نذر کردیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں ۔‘‘ یہ ہدی کی ایک خاص قسم ہے یہ ہدی کا وہ جانور ہے جس کے لیے قلادے وغیرہ تیار کر کے صرف اس لیے اس کی گردن میں ڈالے گئے ہوں تاکہ اس سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ کے شعائر ہیں، نیز اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں اور اس سے سنت کی تعلیم بھی مقصود ہے۔ تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے ، لہٰذا حرمت کا حامل ہے۔ بنا بریں ہدی کو علامت کے طور پر قلادے وغیرہ پہنانا سنت ہے اور شعائر مسنونہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَلَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ ﴾ ’’اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جارہے ہوں ۔‘‘ یعنی جو بیت اللہ کا قصد رکھتے ہیں ﴿یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا﴾ ’’اور اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں ۔‘‘ یعنی جو بیت اللہ پہنچنے کا قصد رکھتا ہے اور وہ تجارت اور جائز ذرائع اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ہے یا وہ حج، عمرہ، طواف بیت اللہ، نماز اور مختلف انواع کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ برائی سے پیش آؤ نہ اس کی اہانت کرو بلکہ اس کی تکریم کرو اور تمھارے رب کے گھر کی زیارت کے لیے جانے والوں کی تعظیم کرو۔ اس حکم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بیت اللہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پرامن بنایا جائے تاکہ بیت اللہ کو جانے والے بڑے اطمینان سے اللہ کے گھر کو جا سکیں ، انھیں راستے میں قتل و غارت اور اپنے اموال کے بارے میں کسی چوری ڈاکے اور کسی ظلم کا خوف نہ ہو۔ اس آیت کریمہ کے عموم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کرتا ہے ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا ﴾ (التوبہ: 9؍28) ’’اے ایمان لانے والے لوگو! مشرک تو ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔ ‘‘ لہٰذا مشرک حرم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس آیت کریمہ میں بیت اللہ کی طرف جانے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کا قصد رکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اس نیت سے بیت اللہ کا قصد کرتا ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کی ہتک حرمت کا ارتکاب کرے، اس کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں فساد پھیلانے سے روکا جائے کیونکہ اسے اس فعل سے روکنا حرم کے احترام کی تکمیل ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِـاِلْحَادٍۭؔ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ (الحج: 22؍25) ’’اور جو کوئی اس میں ظلم سے کج روی کرنا چاہے ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کیا ہے اس لیے فرمایا: ﴿وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا﴾ ’’اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔‘‘ یعنی جب تم حج اور عمرہ کا احرام کھول دو تو تمھارے لیے شکار کرنا جائز ہے اور اب اس کی تحریم ختم ہو گئی ہے۔ تحریم کے بعد کا حکم محرمہ اشیاء کو ان کی اس حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے جو تحریم کے حکم سے پہلے تھی۔ ﴿وَلَا یَجْرِمَنَّـكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْؔكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ ’’اور لوگوں کی دشمنی، اس وجہ سے کہ انھوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا، تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے۔‘‘ یعنی کسی قوم کا بغض، عداوت اور تم پر ان کا ظلم و تعدی کہ انھوں نے تمھیں مسجد حرام تک جانے سے روکا تھا تمھیں ان پر ظلم و تعدی کرنے پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے بدلہ لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو۔ کیونکہ بندے پر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرنا اور عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا فرض ہے۔ خواہ اس کے خلاف جرم، ظلم یا زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ جس نے اس پر جھوٹا الزام لگایا، اس پر جھوٹا الزام لگانا اور جس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اس کے ساتھ خیانت کرنا کسی حالت میں جائز نہیں ۔ ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْـبِرِّ وَالتَّقْوٰى ﴾ ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘ یعنی تم نیکیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ یہاں ﴿ الْـبِرِّ ﴾ ’’نیکی‘‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔ اس مقام پر تقویٰ ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ترک کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولe کو ناپسند ہیں ۔ بھلائی کی ہر خصلت جس کے فعل کا حکم یا برائی کی ہر خصلت جسے ترک کرنے کا حکم ہے بندہ خود بھی اس کے فعل پر مامور ہے اور اسے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ، اپنے قول و فعل کے ذریعے سے جو ان کو اس بھلائی پر آمادہ کرے یا اس میں نشاط پیدا کرے، تعاون کرنے کا حکم ہے۔ ﴿ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ ﴾ ’’اور گناہ پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو‘‘ اور یہ ان گناہوں پر جسارت ہے جن کے ارتکاب سے انسان گناہ گار اور ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے ﴿ وَالْعُدْوَانِ ﴾ ’’اور نہ زیادتی پر‘‘ یہ مخلوق کے ساتھ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و ناموس کے بارے میں ظلم اور زیادتی ہے۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ ہر گناہ اور ظلم و تعدی سے اپنے آپ کو بھی روکے اور دوسروں کے ساتھ بھی اس ظلم و تعدی کو ترک کرنے پر تعاون کرے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴾ ’’اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جو اس کی نافرمانی کرے گا اور محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے گا۔ پس ہتک محارم سے بچو مبادا (ایسا نہ ہو) کہ تم اس کی دنیاوی یا اخروی سزا کے مستحق بن جاؤ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [2]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF