Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 5
- SuraName
- تفسیر سورۂ مائدۃ
- SegmentID
- 326
- SegmentHeader
- AyatText
- {1} هذا أمر من الله تعالى لعباده المؤمنين بما يقتضيه الإيمان بالوفاء بالعقود؛ أي: بإكمالها وإتمامها وعدم نقضها ونقصها، وهذا شامل للعقود التي بين العبد وبين ربِّه من التزام عبوديته؛ والقيام بها أتم قيام، وعدم الانتقاص من حقوقها شيئاً، والتي بينه وبين الرسول بطاعته واتباعه، والتي بينه وبين الوالدين والأقارب ببرِّهم وصلتهم وعدم قطيعتهم، والتي بينه وبين أصحابه من القيام بحقوق الصحبة في الغنى والفقر واليسر والعسر، والتي بينه وبين الخلق من عقود المعاملات كالبيع والإجارة ونحوهما، وعقود التبرعات كالهبة ونحوها، بل والقيام بحقوق المسلمين التي عقدها الله بينهم في قوله: {إنما المؤمنون إخوة}، [بالتناصر] على الحقِّ والتعاون عليه والتآلف بين المسلمين وعدم التقاطع؛ فهذا الأمر شامل لأصول الدين وفروعه؛ فكلُّها داخلةٌ في العقود التي أمر الله بالقيام بها [ويستدل بهذه الآية أن الأصل في العقود والشروط الإباحة، وأنها تنعقد بما دلَّ عليها من قول أو فعل لإطلاقها]. ثم قال ممتنًّا على عباده: {أحِلَّت لكم}؛ أي: لأجلكم، رحمة بكم، {بهيمة الأنعام}: من الإبل والبقر والغنم، بل ربَّما دَخَلَ في ذلك الوحشي منها والظباء وحمر الوحش ونحوها من الصيود. واستدل بعض الصحابة بهذه الآية على إباحة الجنين الذي يموت في بطن أمِّه بعدما تذبح. {إلَّا ما يُتْلى عليكم}: تحريمُه منها في قوله: {حُرِّمَتْ عليكُم الميتةُ والدَّمُ ولحمُ الخنزير ... } إلى آخر الآية؛ فإن هذه المذكورات وإن كانت من بهيمة الأنعام؛ فإنها محرمة. ولما كانت إباحة بهيمة الأنعام عامة في جميع الأحوال والأوقات؛ استثنى منها الصيد في حال الإحرام، فقال: {غير مُحِلِّي الصيد وأنتم حُرُم}؛ أي: أحلت لكم بهيمة الأنعام في كلِّ حال؛ إلاَّ حيث كنتم متَّصفين بأنكم غير محلِّي الصيد وأنتم حرم؛ أي: متجرِّئون على قتله في حال الإحرام؛ فإنَّ ذلك لا يحل لكم إذا كان صيداً؛ كالظباء ونحوه، والصيد هو الحيوان المأكول المتوحش. {إنَّ الله يحكُم ما يريدُ}؛ أي: فمهما أراده تعالى؛ حَكَمَ به حكماً موافقاً لحكمتِهِ؛ كما أمركم بالوفاء بالعقود؛ لحصول مصالحكم ودفع المضارِّ عنكم، وأحلَّ لكم بهيمة الأنعام رحمةً بكم، وحرم عليكم ما استثنى منها من ذوات العوارض من الميتة ونحوها صوناً لكم واحتراماً، ومن صيد الإحرام احتراماً للإحرام وإعظاماً.
- AyatMeaning
- [1] یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو اس بات کا حکم ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے۔ ان میں کمی کی جائے نہ ان کو توڑا جائے۔ یہ آیت کریمہ ان تمام معاہدوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کا التزام، اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں سے کچھ کمی نہ کرنا۔ اور یہ ان معاہدوں کو بھی شامل ہے جو بندے اور رسول اللہe کے مابین آپ کی اتباع اور اطاعت کے بارے میں ہیں ۔ اور اسی طرح اس میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو بندے اور اس کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں ۔ نیز اس آیت کریمہ کے حکم میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو فراخی اور تنگ دستی، آسانی اور تنگی میں صحبت اور دوستی کے حقوق کے بارے میں ہیں ۔ اس کے تحت وہ معاہدے بھی آتے ہیں جو معاملات، مثلاً: خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں ۔ اس میں صدقات اور ہبہ وغیرہ کے معاہدے کی پابندی، مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے جن کی پابندی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عائد کیا ہے۔ ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ (الحجرات: 49؍10) ’’تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘بلکہ حق کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے مل جل کر رہنا اور قطع تعلقات سے اجتناب وغیرہ تک شامل ہے۔ پس اس حکم میں دین کے تمام اصول و فروع شامل ہیں اور دین کے تمام اصول و فروع ان معاہدوں میں داخل ہیں جن کی پابندی کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اُحِلَّتْ لَكُمْ ﴾ ’’تمھارے لیے حلال کردیے گئے۔‘‘ یعنی تمھاری خاطر اور تم پر رحمت کی بنا پر حلال کر دیے گئے ہیں ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’چوپائے مویشی‘‘ یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ بلکہ بسا اوقات اس میں جنگلی جانور ، مثلاً: ہرن اور گورخر اور اس قسم کے دیگر شکار کیے جانے والے جانور بھی شامل ہیں ۔ بعض صحابہ کرامy اس آیت کریمہ سے اس بچے کی حلت پر بھی استدلال کرتے ہیں جو ذبح کرتے وقت مذبوحہ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور ذبح کرنے کے بعد وہ مذبوحہ کے پیٹ میں مر جاتا ہے۔( حدیث میں بھی ایسے بچے کو یہ کہہ کر حلال قرار دیا گیا ہے ذَکوٰۃُ الْجَنِیْنِ ذَکَاۃُ اُمِّہِ (سنن أبي داود، و جامع الترمذي، بحوالہ صحیح الجامع) ’’بچے کا ذبح کرنا یہی ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کر لیا جائے۔‘‘ یعنی ماں کا ذبح کر لینا‘ بچے کی حلت کیلیے کافی ہے۔ (ص ۔ ی) ﴿اِلَّا مَا یُتْ٘لٰى٘٘ ﴾ ’’سوائے ان چیزوں (کی تحریم) کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں ۔‘‘ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْ٘زِیْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْ٘مَوْقُ٘وْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ۠ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَاۤ اَكَ٘لَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّـیْتُمْ ﴾ الآیۃ (المائدۃ: 5؍3) ’’تم پر حرام کر دیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو گر کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور وہ جانور جسے درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم ذبح کر لو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کیے جائیں …‘‘ مذکورہ بالا تمام جانور اگرچہ ﴿بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ ﴾ مویشیوں میں شامل ہیں تاہم یہ مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں ۔ یہ چوپائے مویشی عام طور پر تمام احوال و اوقات میں مباح ہیں البتہ احرام کی حالت میں ان کے شکار کو مستثنی قرار دیا گیا ہے، اس لیے فرمایا: ﴿ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ﴾ ’’مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں ‘‘ یعنی یہ جانور تمھارے لیے تمام احوال میں حلال ہیں سوائے اس حالت میں جبکہ تم احرام حج کی حالت میں ہو تب اس حالت میں شکار نہ کرو، یعنی احرام میں ان کو مارنے کی جرأت نہ کرو۔ کیونکہ حالت احرام میں ان کا شکار کرنا ، مثلاً: ہرن وغیرہ کو مارنا تمھارے لیے جائز نہیں ۔ شکار سے مراد وہ جنگلی جانور ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ﴾ ’’بے شک اللہ جو چاہے، فیصلہ کرتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اس امر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس طرح اس نے تمھارے مصالح کے حصول اور مضرت کو دور کرنے کے لیے تمھیں معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا اور تم پر رحمت کی بنا پر اس نے تمھارے لیے مویشیوں کو حلال قرار دیا اور بعض موانع کی وجہ سے جو جانور ان میں سے مستثنی ہیں ان کو حرام قرار دیا ، مثلاً: مردار وغیرہ اس کا مقصد تمھاری حفاظت اور احترام ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کو حرام قرار دیا اور اس کا مقصد احرام کا احترام اور تعظیم ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [1]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF