Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
321
SegmentHeader
AyatText
{170} يأمر تعالى جميعَ الناس أن يؤمِنوا بعبدِهِ ورسوله محمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم -، وذكر السبب الموجب للإيمان به والفائدة من الإيمان به. والمضرَّة من عدم الإيمان به. فالسَّبب الموجب هو إخباره بأنَّه جاءهم بالحقِّ؛ أي: فمجيئُهُ نفسُه حقٌّ وما جاء به من الشرع حقٌّ؛ فإنَّ العاقل يعرِفُ أن بقاء الخلق في جهلهم يعمهون وفي كفرِهم يتردَّدون والرسالة قد انقطعت عنهم غيرُ لائق بحكمةِ الله ورحمته؛ فمن حكمتِهِ ورحمته العظيمة نفس إرسال الرسول إليهم ليعرِّفهم الهدى من الضلال والغي من الرشد؛ فمجرَّد النظر في رسالتِهِ دليلٌ قاطعٌ على صحَّة نبوَّته، وكذلك النظر إلى ما جاء به من الشرع العظيم والصِّراط المستقيم؛ فإنَّ فيه من الإخبار بالغيوب الماضية والمستقبلة والخبر عن الله وعن اليوم الآخرِ ما لا يعرفه إلاَّ بالوحي والرسالة وما فيه من الأمر بكلِّ خير وصلاح ورشدٍ وعدل وإحسان وصدق وبرٍّ وصلةٍ وحسن خُلق، ومن النهي عن الشرِّ والفساد والبغي والظُّلم وسوء الخُلُق والكذب والعقوق، مما يقطع به أنَّه من عند الله، وكلَّما ازداد به العبد بصيرةً؛ ازداد إيمانُه ويقينُه؛ فهذا السبب الداعي للإيمان. وأما الفائدة في الإيمان؛ فأخبر أنه خيرٌ {لكم}، والخير ضدُّ الشرِّ؛ فالإيمان خير للمؤمنين في أبدانهم وقلوبهم وأرواحهم ودُنياهم وأخراهم، وذلك لما يترتَّب عليه من المصالح والفوائد؛ فكلُّ ثواب عاجل وآجل فمن ثمرات الإيمان؛ فالنصر والهدى والعلم والعمل الصالح والسرور والأفراح والجنَّة وما اشتملت عليه من النعيم كلُّ ذلك سبب عن الإيمان؛ كما أن الشقاء الدُّنيويَّ والأخرويَّ من عدم الإيمان أو نقصه. وأما مضرَّة عدم الإيمان به - صلى الله عليه وسلم -؛ فيُعْرَفُ بضدِّ ما يترتَّب على الإيمان به وأن العبد لا يضرُّ إلاَّ نفسه، والله تعالى غنيٌّ عنه لا تضرُّه معصية العاصين، ولهذا قال: {فإنَّ لله ما في السموات والأرضِ}؛ أي: الجميع خَلْقُه وملكُه وتحت تدبيره وتصريفه. {وكان الله عليماً}: بكلِّ شيءٍ {حكيماً}: في خلقِهِ وأمره؛ فهو العليم بمن يستحقُّ الهداية والغواية، الحكيم في وضع الهداية والغواية موضعهما.
AyatMeaning
[170] اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے اور رسول محمد مصطفیe پر ایمان لائیں ۔ اس نے اس سبب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ایمان کا موجب ہے اور ایمان کے اندر جو فوائد اور عدم ایمان کے اندر جو نقصانات ہیں ان سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ایمان کا موجب سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دینا ہے کہ رسول اللہe حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں ۔ آپ کی تشریف آوری فی نفسہ حق اور جو شریعت آپ لائے ہیں وہ بھی حق ہے۔ عقلمند شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ مخلوق کا اپنی جہالت میں سرگرداں رہنا اور اپنے کفر میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنا جبکہ رسالت منقطع ہو چکی ہو .... اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت کے لائق نہیں ۔ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کو گمراہی اور ضلالت میں سے رشد و ہدایت کی پہچان کروائیں ۔ آپe کی رسالت میں مجرد غور و فکر ہی آپ کی نبوت کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ اسی طرح اس عظیم شریعت اور صراط مستقیم میں غور و فکر، جس کے ساتھ آپ تشریف لائے ہیں ۔ آپe کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں گزشتہ زمانوں اور آئندہ آنے والے زمانوں کے امور غیبیہ نیز اللہ تعالیٰ اور روز آخرت کے بارے میں ایسی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ کوئی شخص وحی اور رسالت کے بغیر ان کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا اور اس میں ہر قسم کی خیر و صلاح، رشد و ہدایت، عدل و احسان، صدق، نیکی، صلہ رحمی اور حسن اخلاق کا حکم دیا گیا ہے اور ہر قسم کے شر، فساد، بغاوت، ظلم، بدخلقی، جھوٹ اور والدین کی نافرمانی سے روکا گیا ہے جن کے بارے میں قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کی بصیرت میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے پس یہ ہے وہ سبب جو بندے کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ رہی ایمان میں فائدے کی بات تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ﴿خَیْرًا لَّـكُمْ ﴾ ’’تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ خیر، شر کی ضد ہے۔ پس ایمان اہل ایمان کے ابدان، ان کے دلوں ، ان کی ارواح اور ان کی دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہتر ہے۔ کیونکہ ایمان پر مصالح اور فوائد مترتب ہوتے ہیں ، چنانچہ ہر قسم کا ثواب، خواہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو یا آخرت میں ، ایمان ہی کا ثمرہ ہے اور فتح و نصرت، ہدایت، علم، عمل صالح، مسرتیں ، فرحتیں ، جنت اور جنت کی تمام نعمتیں ، ان سب کا سبب ایمان ہے۔ جیسے دنیاوی اور اخروی بدبختی عدم ایمان یا نقص ایمان کے باعث ہے۔ رہا رسول اللہe پر عدم ایمان کا ضرر تو اسے ان فوائد کی ضد سے معلوم کیا جا سکتا ہے جو ایمان کے باعث حاصل ہوتے ہیں اور بندہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تمام گناہ گاروں کا گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔‘‘ یعنی زمین و آسمان میں ہر چیز اس کی مخلوق، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر اور تصرف کے تحت ہے ﴿وَؔكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا ﴾ ’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ ﴿حَكِیْمًا ﴾ ’’حکمت والا ہے۔‘‘ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت کا مالک ہے۔ پس وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت اور کون گمراہی کا مستحق ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں وہ حکمت سے کام لیتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[170
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List