Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 316
- SegmentHeader
- AyatText
- {153 ـ 158} هذا السؤال الصادر من أهل الكتاب للرسول محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - على وجه العناد والاقتراح وجَعْلِهم هذا السؤال يتوقَّف عليه تصديقُهم أو تكذيبُهم، وهو أنَّهم سألوه أن ينزِلَ عليهم القرآن جملةً واحدةً كما نزلتِ التوراة والإنجيل، وهذا غاية الظُّلم منهم [والجهل]؛ فإن الرسول بشرٌ عبدٌ مدبَّرٌ ليس في يده من الأمر شيءٌ، بل الأمر كلُّه لله، وهو الذي يرسل وينزل ما يشاء على عباده؛ كما قال تعالى عن الرسول لما ذَكَرَ الآيات التي فيها اقتراح المشركين على محمد: {قُلْ سبحان ربِّي هل كنتُ إلا بشراً رسولاً}؛ وكذلك جعلهم الفارق بين الحقِّ والباطل مجرَّد إنزال الكتاب جملةً أو مفرقاً مجرَّد دعوى لا دليل عليها، ولا مناسبة بل ولا شُبهة؛ فمن أين يوجد في نبوَّة أحد من الأنبياء أنَّ الرسول الذي يأتيكم بكتابٍ نزل مفرَّقاً؛ فلا تؤمنوا به ولا تصدِّقوه؟! بل نزول هذا القرآن مفرَّقاً بحسب الأحوال مما يَدُلُّ على عظمتِهِ واعتناء الله بمن أُنْزِل عليه؛ كما قال تعالى: {وقال الذين كفروا لولا نُزِّلَ عليه القرآن جملةً واحدةً كذلك لِنُثَبِّتَ به فؤادك ورتَّلْناه ترتيلاً. ولا يأتونَكَ بَمَثل إلاَّ جئناك بالحقِّ وأحسنَ تفسيراً}. فلمَّا ذكر اعتراضهم الفاسد؛ أخبر أنه ليس بغريب من أمرهم، بل سبق لهم من المقدِّمات القبيحة ما هو أعظم مما سلكوا مع الرسول الذي يزعمون أنهم آمنوا به؛ من سؤالهم له رؤية الله عياناً، واتِّخاذهم العجلَ إلهاً يعبُدونه من بعدما رأوا من الآيات بأبصارهم ما لم يَرَه غيرهم، ومن امتناعهم من قبول أحكام كتابهم، وهو التوراة حتى رفع الطُّور من فوق رؤوسهم، وهُدِّدوا أنهم إن لم يؤمنوا أسقط عليهم فقبلوا ذلك على وجه الإغماض والإيمان الشبيه بالإيمان الضروريِّ، ومن امتناعهم من دخول أبواب القرية التي أمروا بدخولها سجَّداً مستغفرين فخالفوا القول والفعل، ومن اعتداء من اعتدى منهم في السبت فعاقبهم الله تلك العقوبة الشنيعة، وبأخذ الميثاق الغليظ عليهم فنبذوه وراء ظهورِهم وكفروا بآيات الله وقتلوا رسلَه بغير حقٍّ، ومن قولهم: إنَّهم قتلوا المسيح عيسى وصلبوه، والحالُ أنَّهم ما قتلوه وما صلبوه بل شُبِّه لهم غيره. فقتلوا غيره وصَلَبوه، وادِّعائهم أنَّ قلوبهم غلفٌ لا تفقه ما تقول لهم ولا تفهمه، وبصدِّهم الناس عن سبيل الله فصدُّوهم عن الحقِّ، ودعَوْهم إلى ما هم عليه من الضلال والغيِّ، وبأخذِهم السُّحت والرِّبا مع نهي الله لهم عنه والتشديد فيه؛ فالذين فعلوا هذه الأفاعيل لا يُستنكر عليهم أن يسألوا الرسول محمداً أن ينزِّل عليهم كتاباً من السماء. وهذه الطريقة من أحسن الطُّرق لمحاجَّة الخصم المبطل، وهو أنَّه إذا صدر منه من الاعتراض الباطل ما جعله شبهةً له ولغيره في ردِّ الحق أن يبيَّن من حاله الخبيثة وأفعاله الشنيعة ما هو من أقبح ما صدر منه؛ ليعلم كلُّ أحدٍ أنَّ هذا الاعتراض من ذلك الوادي الخسيس، وأنَّ له مقدماتٍ يجعل هذا معها. وكذلك كل اعتراض يعترضون به على نبوَّة محمدٍ - صلى الله عليه وسلم - يمكنُ أن يقابَلَ بمثلِهِ أو ما هو أقوى منه في نبوَّة من يدَّعون إيمانهم به؛ ليكتفي بذلك شرّهم وينقمع باطلهم، وكل حجَّة سلكوها في تقريرهم لنبوَّة من آمنوا به؛ فإنها ونظيرها وما هو أقوى منها دالَّة ومقرِّرة لنبوَّة محمد - صلى الله عليه وسلم -. ولما كان المراد من تعديد ما عدَّد الله من قبائحهم هذه المقابلة؛ لم يبسطْها في هذا الموضع، بل أشار إليها وأحال على مواضعها، وقد بسطها في غير هذا الموضع في المحلِّ اللائق ببسطها.
- AyatMeaning
- [158-153] اہل کتاب نے رسول اللہe سے یہ سوال مطالبہ اور عناد کی بناپر کیا تھا۔ اور اسی پر انھوں نے اپنی تصدیق و تکذیب کو موقوف قرار دیا تھا اور ان کا سوال یہ تھا کہ ان پر تمام قرآن ایک ہی بار نازل ہو جائے جیسے تورات اور انجیل ایک ہی بار نازل ہوئی تھیں ۔ یہ ان کی طرف سے انتہائی ظالمانہ مطالبہ تھا کیونکہ رسولe تو ایک بشر اور بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے تحت ہیں ، رسول اللہe کے ہاتھ میں تو کوئی اختیار نہیں ۔ تمام اختیار اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہی ہے جو اپنے بندوں پر جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کی طرف سے اس وقت فرمایا جب مشرکین نے اسی قسم کے مطالبے کیے تھے۔ ﴿قُ٘لْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (بني إسرائیل: 17؍93) ’’کہہ دیجیے پاک ہے میرا رب میں تو ایک بشر ہوں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول۔‘‘ اسی طرح مجرد کتاب کے ایک مرتبہ یا متفرق طور پر نازل کرنے کو، ان کی طرف سے حق و باطل کے درمیان فارق (فرق کرنے والا) بنانا بھی، مجرد دعویٰ ہے، جس کی کوئی دلیل اور کوئی مناسبت نہیں اور نہ کوئی شبہ ہے۔ انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی نبوت میں کہاں آیا ہے کہ وہ رسول جو تمھارے پاس کتاب لے کر آئے اور اگر یہ کتاب ٹکڑوں میں نازل کی گئی ہو تو تم اس پر ایمان لانا نہ اس کی تصدیق کرنا؟ بلکہ قرآن مجید کا حسب احوال تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہونا اس کی عظمت اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس پیغمبر پر، جس پر وہ نازل ہوا، اللہ کی خاص عنایت اور توجہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْ٘قُ٘رْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۰۰وَلَا یَ٘اْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۰۰﴾ (الفرقان: 25؍32۔33) ’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں کیا گیا، اسی طرح آہستہ آہستہ اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ تمھارے دل کو قائم رکھیں اور ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ لوگ تمھارے پاس جو اعتراض بھی لے کر آئیں ہم تمھارے پاس حق اور اس کی بہترین تفسیر لے کر آتے ہیں ۔‘‘ جب اللہ نے ان کے اس فاسد اعتراض کا ذکر کیا تو یہ بھی بتلایا کہ ان کے معاملے میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پہلے ان کی اس سے بھی بری باتیں گزر چکی ہیں جو انھوں نے اس نبی کے ساتھ اختیار کیں ، جس کی بابت ان کا گمان ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے تھے۔ مثلاً: ظاہری آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ عبادت کے لیے بچھڑے کو معبود بنانا وغیرہ، حالانکہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ کچھ دیکھ چکے تھے جو کسی اور نے نہیں دیکھا۔ اپنی کتاب تورات کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کرنا، یہاں تک کہ کوہ طور کو اٹھا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا اور ان کو دھمکایا گیا کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پہاڑ کو ان پر گرا دیا جائے گا تو اغماض برتتے ہوئے اور اس ایمان کے ساتھ اسے قبول کر لیا جو ایمان ضروری کے مشابہ تھا۔ بستی کے دروازوں سے اس طریقے سے داخل ہونے سے انکار کرنا جس طریقے سے انھیں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا، یعنی سجدہ کرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے۔ (اس موقع پر) انھوں نے قول و فعل دونوں طرح سے مخالفت کی۔ ہفتے کے روز ان کا حد سے تجاوز کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس گناہ کی پاداش میں ان کو سخت سزا دی۔ ان سے پکا عہد لیا۔ مگر انھوں نے اس میثاق کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کو ناحق قتل کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام) کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ حالانکہ انھوں نے انھیں قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو کسی اور کے ساتھ اشتباہ میں ڈال دیا گیا تھا، جسے انھوں نے قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔ ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ ان کے دلوں پر غلاف ہیں آپe جو کچھ ان سے کہتے ہیں وہ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ان کا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور جس ضلالت اور گمراہی میں خود مبتلا ہیں لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینا۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو حق سے روک دیا۔ ان کا سود اور حرام کھانا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سود خوری سے نہایت سختی سے روکا تھا۔ پس جن لوگوں کے یہ کرتوت ہوں تو ان کے بارے میں یہ کوئی ان ہونی بات نہیں کہ انھوں نے رسول اللہe سے یہ مطالبہ کیا ہو کہ وہ آسمان سے ان پر کتاب اتار دے۔ باطل پرست مخالف فریق کے ساتھ مباحثہ و مجادلہ میں دلیل دینے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ جب فریق مخالف کی طرف سے کوئی باطل اعتراض وارد ہو جس نے حق ٹھکرانے میں اس کو یا کسی اور کو شبہ میں مبتلا کر رکھا ہو… تو وہ اس مخالف کے ان خبیث احوال اور قبیح افعال کو بیان کرے جو اس سے صادر ہوئے اور وہ بدترین اعمال ہیں ۔ تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ اعتراضات بھی اسی خسیس نوع کے ہیں اور اس کے کچھ مقدمات بد ہیں اور یہ اعتراض بھی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ اعتراض جو وہ نبوت محمدی (e) پر عائد کرتے ہیں اس کا مقابلہ بھی اسی قسم کے یا اس سے بھی قوی اعتراض سے اس نبوت کی بابت کر کے کیا جا سکتا ہے جس پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اس طرح ان کے شر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے باطل کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔اور ہر وہ دلیل جس کووہ اس نبی کی نبوت کے ثبوت اور تحقق کے لیے پیش کرتے ہیں جس پر یہ ایمان لائے ہوئے ہیں تو یہی دلیل اور اس جیسے دیگر دلائل اور ان سے بھی زیادہ قوی دلائل محمدe کی نبوت کو ثابت اور متحقق کرتے ہیں ۔چونکہ ان کے اعتراض کے مقابلہ میں ان کی برائیوں اور قباحتوں کو صرف شمار کرنا مقصود ہے اس لیے اس مقام پر تفصیل بیان نہیں کی بلکہ ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے مقامات کا حوالہ دے دیا ہے اور اس مقام کے علاوہ دیگر مناسب مقام پر ان کو مبسوط طور پر بیان کیا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [158
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF