Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 306
- SegmentHeader
- AyatText
- {135} يأمر تعالى عبادَه المؤمنين أن يكونوا {قوَّامين بالقسطِ شهداء لله}، والقوَّام صيغةُ مبالغةٍ؛ أي: كونوا في كلِّ أحوالكم قائمين بالقسطِ الذي هو العدل في حقوق الله وحقوق عباده؛ فالقِسْطُ في حقوق الله أن لا يُستعان بنعمه على معصيتِهِ، بل تُصرف في طاعته، والقِسْط في حقوق الآدميِّين أن تُؤدِّيَ جميع الحقوق التي عليك كما تَطْلُبُ حقوقك، فتؤدِّي النفقات الواجبة والدُّيون وتعامل الناس بما تحبُّ أن يعاملوك به من الأخلاق والمكافأة وغير ذلك. ومن أعظم أنواع القِسْط القِسْط في المقالات والقائلين؛ فلا يحكم لأحدِ القولين أو أحد المتنازِعَين لانتسابه أو ميله لأحدهما، بل يَجعل وجهته العدل بينهما، ومن القسط أداء الشهادة التي عندك على أيِّ وجه كان، حتى على الأحباب، بل على النفس، ولهذا قال: {شهداء لله ولو على أنفسكم أو الوالدين والأقربين، إن يكنْ غنيًّا أو فقيراً فالله أولى بهما}؛ أي: فلا تُراعوا الغنيَّ لغناه ولا الفقير بزعمكم رحمة له، بل اشهدوا بالحقِّ على مَن كان. والقيام بالقسط من أعظم الأمور وأدل على دين القائم به وورعِهِ ومقامِهِ في الإسلام، فيتعيَّن على مَن نصح نفسه وأراد نجاتَها أن يهتمَّ له غاية الاهتمام، وأن يَجْعَلَهُ نصبَ عينيه ومحلَّ إرادته، وأن يزيل عن نفسِهِ كلَّ مانع وعائق يَعوقه عن إرادة القِسْط أو العمل به، وأعظم عائق لذلك اتِّباع الهوى، ولهذا نبَّه تعالى على إزالة هذا المانع بقوله: {فلا تتَّبِعوا الهوى أن تعدِلوا}؛ أي: فلا تتَّبعوا شهوات أنفسكم المعارضة للحقِّ؛ فإنكم إن اتَّبعتموها؛ عدلتُم عن الصواب ولم توفَّقوا للعدل؛ فإنَّ الهوى إمَّا أن يُعْمِيَ بصيرة صاحبه حتى يرى الحقَّ باطلاً والباطلَ حقًّا، وإما أن يعرفَ الحقَّ ويتركَه لأجل هواه؛ فمن سلم من هوى نفسه؛ وفِّق للحق وهُدِيَ إلى الصراط المستقيم. ولما بيَّن أنَّ الواجب القيام بالقِسط؛ نهى عن ما يضادُّ ذلك، وهو لَيُّ اللسان عن الحقِّ في الشهادات وغيرها، وتحريف النُّطق عن الصواب المقصود من كلِّ وجه أو من بعض الوجوه، ويدخل في ذلك تحريف الشهادة وعدم تكميلها أو تأويلُ الشاهد على أمرٍ آخر؛ فإنَّ هذا من اللَّيِّ؛ لأنَّه الانحراف عن الحقِّ. {أو تعرِضوا}؛ أي: تتركوا القِسْط المَنوط بكم كترك الشاهد لشهادته وترك الحاكم لحكمه الذي يَجِبُ عليه القيام به. {فإنَّ الله كان بما تعملون خبيراً}؛ أي: محيط بما فعلتم، يعلم أعمالَكم خفيَّها وجليَّها، وفي هذا تهديدٌ شديدٌ للذي يلوي أو يعرض، ومن باب أولى وأحرى الذي يحكم بالباطل أو يشهد بالزُّور؛ لأنه أعظم جرماً؛ لأن الأوَّلَيْنِ تركا الحقَّ، وهذا ترك الحقَّ، وقام بالباطل.
- AyatMeaning
- [135] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی دینے والے بن جائیں۔ (اَلْقَوَّام) مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی اپنے تمام احوال میں عدل پر قائم رہو (قِسْطٌ) سے مراد حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں عدل و انصاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے حقوق میں انصاف یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال نہ کیا جائے بلکہ ان کو اس کی اطاعت و فرماں برداری میں صرف کیا جائے اور حقوق العباد میں عدل و انصاف یہ ہے کہ بندوں کے وہ تمام حقوق ادا کیے جائیں جو تجھ پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح تیرے حقوق ان پر واجب ہیں اور تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے پس تو نفقات واجبہ اور قرض وغیرہ ادا کر اور تو لوگوں سے اسی اخلاق و حسن صلہ کے ساتھ معاملہ کر، جو تو اپنے بارے میں ان سے چاہتا ہے۔ سب سے بڑا انصاف، باتوں اور بات کہنے والوں کے بارے میں ہے۔ دو باتوں میں سے کسی ایک بات کے حق میں یا کسی تنازع کے فریقین میں کسی فریق کے حق میں محض اس وجہ سے فیصلہ نہ کرے کہ اسے اس بات سے یا فریق سے کوئی نسبت ہے یا اس کی طرف میلان ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان عدل کو مقدم رکھے۔ عدل و انصاف کی ایک قسم یہ ہے کہ تو اس شہادت کو ادا کر جو تیرے ذمہ عائد ہے خواہ وہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں خواہ یہ شہادت تیرے محبوب لوگوں کے خلاف بلکہ خود تیری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ شُهَدَآءَؔ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْ٘رَبِیْنَ١ۚ اِنْ یَّكُ٘نْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا ﴾ ’’اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے اگرچہ وہ تمھارے اپنے خلاف ہو یا والدین کے یا رشتہ داروں کے وہ شخص اگر امیر ہو یا فقیر، پس اللہ زیادہ حق دار ہے بہ نسبت ان دونوں کے۔‘‘ یعنی کسی دولت مند کی اس کی دولت کی وجہ سے رعایت کرو نہ کسی محتاج پر بزعم خویش ترس کھاتے ہوئے اس کی رعایت کرو، بلکہ صحیح صحیح شہادت دو، خواہ کسی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف قائم کرنا عظیم ترین امور میں شمار ہوتا ہے نیز یہ چیز عدل قائم کرنے والے کے دین، ورع اور اسلام میں اس کے مقام پر دلالت کرتی ہے۔ پس یہ بات متعین ہے کہ جو کوئی اپنے نفس کا خیر خواہ ہے اور وہ اس کی نجات چاہتا ہے، تو وہ عدل کا پورا پورا اہتمام کرے، اس کو مدنظر رکھے اور اپنے ارادے کا مرکز بنائے رکھے اور نفس سے ہر اس داعیے کو دور کر دے جو عدل کے ارادے سے مانع اور اس پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہو اور انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا ﴾ ’’تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔‘‘ یعنی تم حق کی مخالفت میں اپنے نفس کی اتباع نہ کرو۔ اگر تم نے اپنے نفس کی پیروی کی تو راہ صواب سے ہٹ جاؤ گے اور تم عدل و انصاف کی توفیق سے محروم ہو جاؤ گے۔ کیونکہ خواہش نفس یا تو انسان کی بصیرت کو اندھا کر دیتی ہے اور اسے حق باطل اور باطل حق دکھائی دیتا ہے۔ یا وہ حق کو پہچان لیتا ہے مگر اپنی خواہش نفس کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص خواہش نفس سے محفوظ رہا اسے حق کی توفیق عطا ہوتی ہے اور وہ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے نوازا جاتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا واجب ہے، تو اس نے ہر اس چیز سے بھی روک دیا جو عدل کی ضد ہے۔ یعنی شہادت وغیرہ میں زبان کو حق سے ہٹا دینا اور ہر لحاظ سے یا کسی ایک پہلو سے نطق زبان کو صواب مقصود سے پھیر دینا اور اسی میں، شہادت میں تحریف کرنا، اس کی عدم تکمیل اور شاہد کا شہادت کی تاویل کرتے ہوئے اس کا رخ کسی اور طرف پھیر دینا، بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی (لَيّ) زبان کی کجی میں سے ہے، کیونکہ یہ حق سے انحراف ہے۔ ﴿ اَوْ تُ٘عْرِضُوْا ﴾ ’’یا تم اعراض کرو۔‘‘ یعنی اگر تم اس عدل و انصاف کو ترک کر دو جس کا دار و مدار تم پر ہے جیسے شاہد کا شہادت کو ترک کر دینا یا حاکم کا اپنے فیصلے کو ترک کر دینا جو کہ اس پر واجب تھا ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ﴾ ’’تو (جان رکھو) اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ یعنی وہ تمھارے افعال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمھارے ظاہر و باطن تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے سخت تہدید ہے جو زبان سے کجی اختیار کرتا یا حق سے اعراض کرتا ہے اور وہ شخص اس تہدید کا بدرجہ اولیٰ مستحق ہے جو باطل فیصلہ کرتا یا جھوٹی گواہی دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا جرم سب سے بڑا ہے۔ کیونکہ پہلے دو اشخاص نے حق کو ترک کیا اور اس نے باطل کو قائم کیا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [135
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF