Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 304
- SegmentHeader
- AyatText
- {131 ـ 132} يخبر تعالى عن عموم ملكه العظيم الواسع المستلزم تدبيره بجميع أنواع التَّدبير وتصرُّفه بأنواع التصريف قدراً وشرعاً؛ فتصرُّفه الشرعي أن وصَّى الأوَّلين والآخرين أهل الكتب السابقة واللاَّحقة بالتَّقوى المتضمِّنة للأمر والنَّهي وتشريع الأحكام والمجازاة لمن قام بهذه الوصيَّة بالثواب والمعاقبة لمن أهملها وضيَّعها بأليم العذاب، ولهذا قال: {وإن تَكْفُروا}: بأن تتركوا تقوى الله وتشركوا بالله ما لم ينزِّل به عليكم سلطاناً؛ فإنكم لا تضرُّون بذلك إلا أنفسكم، ولا تضرُّون الله شيئاً، ولا تنقصون ملكَه، وله عبيدٌ خير منكم وأعظم وأكثر، مطيعون له خاضعون لأمره، ولهذا رتَّب على ذلك قوله: {وإن تَكْفُروا فإنَّ لله ما في السموات وما في الأرض وكان الله غنيًّا حميداً}: له الجود الكامل والإحسان الشامل الصادر من خزائن رحمته التي لا يَنْقُصُها الإنفاق ولا يَغيضها نفقةٌ، سحاء الليل والنهار، لو اجتمع أهل السماوات وأهل الأرض أولهم وآخرهم، فسأل كلُّ واحد منهم ما بلغت أمانيه، ما نَقَصَ من ملكه شيئاً، ذلك بأنه جوادٌ واجدٌ ماجدٌ، عطاؤه كلامٌ، وعذابه كلامٌ، إنما أمره لشيء إذا أراد أن يقولَ له كُن فيكون، ومن تمام غِناه أنَّه كامل الأوصاف؛ إذ لو كان فيه نقصٌ بوجه من الوجوه؛ لكان فيه نوعُ افتقارٍ إلى ذلك الكمال، بل له كلُّ صفة كمال، ومن تلك الصفة كمالها. ومن تمام غِناه أنَّه لم يتَّخذ صاحبةً ولا ولداً ولا شريكاً في ملكه ولا ظهيراً ولا معاوناً له على شيء من تدابير ملكِهِ، ومن كمال غناه افتقار العالم العلويِّ والسفليِّ في جميع أحوالهم وشؤونهم إليه وسؤالهم إيّاه جميع حوائجهم الدقيقة والجليلة، فقام تعالى بتلك المطالب والأسئلة، وأغناهم وأقناهم ومنَّ عليهم بلطفه وهداهم. وأما الحميدُ؛ فهو من أسماء الله تعالى الجليلة، الدال على أنه هو المستحقُّ لكلِّ حمدٍ ومحبةٍ وثناء وإكرام، وذلك لما اتَّصف به من صفات الحمد التي هي صفة الجمال والجلال، ولما أنعم به على خلقه من النعم الجزال؛ فهو المحمود على كلِّ حال. وما أحسن اقتران هذين الاسمين الكريمين: الغنيّ الحميد؛ فإنه غنيٌّ محمودٌ؛ فله كمالٌ من غناه وكمالٌ من حمده وكمالٌ من اقتران أحدهما بالآخر، ثم كرَّر إحاطة ملكه لما في السماوات و [ما في] الأرض، وأنَّه على كلِّ شيء وكيل؛ أي: عالم قائم بتدبير الأشياء على وجه الحكمة؛ فإنَّ ذلك من تمام الوكالة؛ فإنَّ الوكالة تستلزم العلم بما هو وكيلٌ عليه، والقوَّة والقدرة على تنفيذه وتدبيره، وكون ذلك التدبير على وجه الحكمة والمصلحة؛ فما نقص من ذلك؛ فهو لنقص الوكيل، والله تعالى منزَّه عن كلِّ نقص.
- AyatMeaning
- [132,131] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسیع اور عظیم اقتدار کے عموم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ شرعاً اور قدراً مختلف طریقوں سے کائنات کی تدبیر کرے اور گوناگوں تصرفات کے ذریعے سے اس میں تصرف کرے۔ اس کا تصرف شرعی یہ ہے کہ اس نے سابقین و اولین اور کتب سابقہ اور بعد میں نازل ہونے والی کتابوں کے ماننے والوں کو تقویٰ کی وصیت کی ہے جو امر و نہی، تشریح احکام اور اس شخص کے لیے ثواب کو متضمن ہے جو اس وصیت پر عمل کرتا ہے اور اس شخص کے لیے دردناک عذاب کی وعید کو متضمن ہے جو اس وصیت کو ضائع کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِنْ تَكْ٘فُ٘رُوْا ﴾ ’’اور اگر کفر کروگے۔‘‘ یعنی اگر تم تقویٰ ترک کر دو اور کفر اختیار کر لو اور ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لو جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اس طرح تم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے، اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں ذرہ بھر کمی نہیں کر سکتے۔ اس کے اور بھی بندے ہیں جو تم سے بہتر اور تم سے زیادہ اطاعت گزار اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا: ﴿ وَاِنْ تَكْ٘فُ٘رُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ کامل جود و کرم اور احسان کا مالک ہے جو کچھ اس کی رحمت کے خزانوں سے صادر ہوتا ہے وہ خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خزانے اگر دن رات خرچ ہوتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر زمین و آسمان کے رہنے والے اول سے لے کر آخر تک تمام لوگ اپنی اپنی آرزوؤں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سوال کریں تو اس کی ملکیت میں ذرہ بھر کمی نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ جواد ہے، ہر چیز کو وجود بخشنے والا اور بزرگی کا مالک ہے۔ وہ اپنے کلام سے عطا کرتا ہے اور اپنے کلام سے عذاب دیتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہوجا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس کی تمام تر بے نیازی یہ ہے کہ وہ کامل اوصاف کا مالک ہے کیونکہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کمال کے لیے محتاج ہوتا۔ بلکہ اس کے لیے کمال کی ہر صفت ہے اور انھی میں سے ایک صفت کمال ہے اور یہ اس کی بے نیازی ہی ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور کوئی اولاد نہیں۔ اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار اور اس کے اپنے اقتدار کی تدبیر میں اس کا کسی قسم کا کوئی معاون نہیں۔ یہ اس کا کامل غنا اور اس کی بے نیازی ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی اپنے تمام احوال اور تمام معاملات میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اسی سے سوال کرتے ہیں..... اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے مطلوب اور سوال کو پورا کرتا ہے، ان کو غنی اور مال دار کر دیتا ہے ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے اور انھیں راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ رہا اسم گرامی (حمید) تو یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کی حمد و ثنا، محبت اور اکرام کا مستحق ہے۔ اس لیے وہ صفات حمد سے متصف ہے جو کہ جمال و جلال کی صفات ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس لیے وہ ہر حال میں ’’محمود‘‘ ہے۔ ان دو اسمائے گرامی یعنی (اَلْغَنِیُّ) (اَلْحَمِیْدُ) کا یک جا ہونا کتنا خوبصورت ہے۔ یقینا وہ بے نیاز اور قابل تعریف ہے، اسے کمال بے نیازی بھی حاصل ہے اور کمال حمد بھی اور ان دونوں کے حسن امتزاج کا کمال بھی۔ پھر اس نے مکرر فرمایا ہے کہ زمین اور آسمانوں میں اقتدار اسی کا ہے اور ہر چیز کو کفایت کرنے والا وہی ہے۔ یعنی وہ علم رکھنے والا اور اپنی حکمت کے مطابق تمام اشیاء کی تدبیر کرتا ہے اور یہی کامل کفایت اور وکالت ہے کیونکہ وکالت اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ جس چیز کا وکیل ہے اسے اس کا پورا پورا علم ہو۔ پھر اس کو نافذ کرنے اور تدبیر کرنے میں پوری قوت اور قدرت رکھتا ہو۔ اور یہ تدبیر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہو۔ اگر ان امور میں کوئی کمی ہے تو وہ وکیل میں نقص کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر نقص سے منزہ ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [132
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF