Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 301
- SegmentHeader
- AyatText
- {128} أي: إذا خافت المرأة نشوزَ زوجِها؛ أي: ترفُّعه عنها وعدم رغبته فيها وإعراضه عنها؛ فالأحسن في هذه الحالة أن يُصلحا بينهما صلحاً؛ بأن تسمح المرأة عن بعض حقوقها اللاَّزمة لزوجِها على وجهٍ تبقى مع زوجِها إمّا أن ترضى بأقلَّ من الواجب لها من النفقة أو الكسوة أو المسكن أو القَسْم؛ بأن تُسْقِطَ حقَّها منه أو تَهَبَ يومَها وليلتها لزوجها أو لضرَّتها؛ فإذا اتَّفقا على هذه الحالة؛ فلا جناح ولا بأس عليهما فيها، لا عليها ولا على الزوج، فيجوز حينئذٍ لزوجها البقاء معها على هذه الحال، وهي خير من الفرقة، ولهذا قال: {والصُّلْحُ خيرٌ}. ويؤخذُ من عموم هذا اللفظ والمعنى أنَّ الصُّلح بين من بينَهما حقٌّ أو منازعة في جميع الأشياء أنه خيرٌ من استقصاء كلٍّ منهما على كلِّ حقِّه لما فيها من الإصلاح وبقاء الألفة والاتِّصاف بصفة السماح، وهو جائزٌ في جميع الأشياء؛ إلاَّ إذا أحلَّ حراماً أو حرَّم حلالاً؛ فإنه لا يكون صلحاً، وإنَّما يكون جوراً، واعلم أنَّ كلَّ حكم من الأحكام لا يتمُّ ولا يكملُ إلا بوجود مقتضيه وانتفاء موانعه؛ فمن ذلك هذا الحكم الكبير الذي هو الصلح، فذكر تعالى المقتضي لذلك، ونبَّه على أنه خيرٌ، والخير كلُّ عاقل يطلُبه ويرغبُ فيه؛ فإنْ كان مع ذلك قد أمر الله به وحثَّ عليه؛ ازداد المؤمن طلباً له ورغبةً فيه، وذكر المانع بقوله: {وأحضِرَتِ الأنفس الشُّحَّ}؛ أي: جُبلت النفوس على الشحِّ، وهو عدم الرغبة في بذل ما على الإنسان، والحرص على الحق الذي له؛ فالنفوس مجبولة على ذلك طبعاً؛ أي: فينبغي لكم أن تحرصوا على قلع هذا الخُلُق الدنيء من نفوسكم، وتستبدلوا به ضدَّه، وهو السماحة، وهو بذل الحقِّ الذي عليك، والاقتناعُ ببعض الحقِّ الذي لك؛ فمتى وُفِّق الإنسان لهذا الخلق الحسن؛ سهل حينئذٍ عليه الصلحُ بينه وبين خصمه ومعامله، وتسهَّلت الطريق للوصول إلى المطلوب؛ بخلاف من لم يجتهدْ في إزالة الشُّحِّ من نفسه؛ فإنه يعسر عليه الصلح والموافقة؛ لأنه لا يرضيه إلاَّ جميع مَا لَهُ، ولا يرضى أن يؤدِّي ما عليه؛ فإن كان خصمُهُ مثله، اشتدَّ الأمر. ثم قال: {وإن تحسنوا وتتَّقوا}؛ أي: تحسنوا في عبادة الخالق؛ بأن يعبدَ العبدُ ربَّه كأنه يراه؛ فإن لم يكن يراه؛ فإنَّه يراه، وتحسِنوا إلى المخلوقين بجميع طرق الإحسان من نفع بمال أو علم أو جاهٍ أو غير ذلك، وتتَّقوا الله بفعل جميع المأمورات وترك جميع المحظورات ، أو تحسِنوا بفعل المأمور وتتَّقوا بترك المحظور؛ {فإنَّ الله كان بما تعملون خبيراً}: قد أحاطَ به علماً وخبراً بظاهرِهِ وباطنِهِ فيحفظه لكم ويجازيكم عليه أتمَّ الجزاء.
- AyatMeaning
- [128] یعنی جب عورت اپنے شوہر کے سخت رویے اور ظلم سے ڈرے یعنی خاوند اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے اور اس میں عدم رغبت کی وجہ سے اعراض کرے تو اس حالت میں بہتر صورت یہ ہے کہ وہ دونوں آپس میں مصالحت کر لیں۔ اور وہ اس طرح کہ بیوی اپنے بعض ان حقوق کو، جو شوہر پر لازم ہیں اس طرح نظر انداز کر دے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہ سکے۔ یا تو وہ نان و نفقہ لباس، مکان وغیرہ میں سے قلیل ترین واجب پر راضی ہو جائے۔ یا اپنی باری میں سے اپنا حق ساقط کر دے یا اپنی باری کے شب و روز اپنی سوکن کو ہبہ کر دے اگر میاں بیوی اس صورت حال پر راضی ہو جائیں تو اس میں دونوں کے لیے کوئی حرج نہیں، اس میں میاں بیوی دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ تب اس صورت حال میں اپنی بیوی کے ساتھ باقی رہنا جائز ہے اور یہ علیحدگی سے بہتر ہے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَالصُّلْ٘حُ خَیْرٌ ﴾ ’’صلح بہتر ہے۔‘‘ اس لفظ اور معنی کے عموم سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ فریقین کے درمیان کسی حق یا تمام اشیاء میں نزاع ہو تو صلح اس سے بہتر ہے کہ وہ تمام اشیاء میں پورا پورا حق وصول کرنے کا مطالبہ کریں۔ کیونکہ اس صلح میں اصلاح، دونوں کے مابین الفت کی بقا اور سماحت (درگزر کرنے) کی صفت سے متصف ہونا ہے۔ یہ صلح تمام اشیاء میں جائز ہے سوائے اس صورت کے جس میں کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام ٹھہرایا گیا ہو۔ تب یہ صلح نہیں بلکہ ظلم و جور ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی حکم اس کے مقتضی کے وجود اور موانع کی نفی کے بغیر مکمل اور پورا نہیں ہوتا اس کی مثال یہی بڑا حکم ہے یعنی فریقین کے درمیان صلح، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تقاضا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھلائی ہے اور عمل کرنے والا ہر شخص بھلائی کا طالب اور بھلائی میں رغبت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بھلائی کا حکم دیا ہو اور اس کی طرف رغبت دلائی ہو تو اس میں مومن کی طلب اور رغبت اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مانع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَاُحْضِرَتِ الْاَنْ٘فُ٘سُ الشُّ٘حَّ ﴾ ’’طمع ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے‘‘ یعنی بخل انسان کی جبلت ہے یہاں (الشُّ٘حَّ) ’’بخل‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان پر خرچ کرنا واجب ہے اسے خرچ کرنے میں راغب نہ ہو۔ اور اپنا حق حاصل کرنے کا بڑا حریص ہو۔ تمام نفوس طبعی طور پر اسی جبلت پر پیدا کیے گئے ہیں۔ یعنی تمھارے لیے مناسب یہ ہے کہ تم اپنے نفس سے اس گھٹیا خلق کا قلع قمع کرنے اور اس کی جگہ اس کی ضد یعنی سماحت کو اختیار کرنے کی کوشش کرو۔ سماحت سے مراد یہ ہے کہ تم اس حق کو ادا کرو جو تمھارے ذمہ ہے اور اپنے حق کے بارے میں اس کے کچھ حصے پر قناعت کرو۔ جب کبھی انسان کو اس خلق حسن کو اپنانے کی توفیق مل جاتی ہے تو اس کے لیے اپنے اور اپنے مخالف کے درمیان صلح آسان ہو جاتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ سہل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی طبیعت سے بخل کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے لیے صلح اور موافقت بہت مشکل کام ہے کیونکہ وہ اپنا پورا حق لیے بغیر راضی نہیں ہوتا اور اس پر جو حق واجب ہے اسے ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اگر دوسرے فریق کا رویہ بھی ایسا ہی ہو تو معاملہ اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا ﴾ ’’اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیز گاری اختیار کرو‘‘ یعنی اگر تم خالق کی عبادت میں احسان سے کام لو یعنی بندہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اگر ایسی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تو یہ تصور پیدا کرے کہ وہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اور تم احسان کے تمام طریقوں سے یعنی مال، اور جاہ وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں سے بھلائی کرو ﴿ وَتَتَّقُوْا ﴾ ’’پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘ یعنی تمام مامورات پر عمل کرتے ہوئے اور تمام محظورات سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو۔ یا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مامورات پر عمل کرنے میں احسان سے کام لو اور محظورات کو ترک کر کے اللہ سے ڈرو۔ ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ﴾ ’’اللہ تمھارے سب کاموں سے باخبر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ بندے کے ظاہر و باطن کا اپنے علم و خبر کے ذریعے سے احاطہ کیے ہوئے ہے پس وہ تمھارے اعمال کو محفوظ کر رہا ہے وہ تمھیں ان اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [128
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF