Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 300
- SegmentHeader
- AyatText
- {127} الاستفتاء طلبُ السائل من المسؤول بيان الحكم الشرعيِّ في ذلك المسؤول عنه، فأخبر عن المؤمنين أنَّهم يستفتون الرسول - صلى الله عليه وسلم - في حكم النساء المتعلِّق بهم، فتولَّى الله هذه الفتوى بنفسه، فقال: {قل الله يُفتيكم فيهنَّ}؛ فاعملوا على ما أفتاكم به في جميع شؤون النساء من القيام بحقوقهنَّ وترك ظلمهنَّ عموماً وخصوصاً، وهذا أمرٌ عام يشمل جميع ما شرع الله أمراً ونهياً في حقِّ النساء الزوجات وغيرهنَّ الصغار والكبار، ثم خصَّ بعد التعميم الوصيةَ بالضِّعاف من اليتامى والولدان اهتماماً بهم وزجراً عن التفريط في حقوقهم، فقال: {وما يُتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء}؛ أي: ويُفتيكم أيضاً بما يتلى عليكم في الكتاب في شأن اليتامى من النساء، {اللاَّتي لا تؤتونهنَّ ما كُتِبَ لهنَّ}: وهذا إخبار عن الحالة الموجودة الواقعة في ذلك الوقت؛ فإنَّ اليتيمة إذا كانت تحت ولاية الرجل؛ بَخَسَها حقَّها، وظلمها إمَّا بأكل مالها الذي لها، أو بعضِهِ، أو مَنْعِها من التزوُّج؛ لينتفع بمالها خوفاً من استخراجه من يدِهِ إن زوَّجها، أو يأخذَ من صهرها الذي تتزوَّج به بشرطٍ أو غيره، هذا إذا كان راغباً عنها، أو يرغب فيها وهي ذات جمال ومال ولا يُقْسِطُ في مهرها، بل يعطيها دون ما تستحقُّ؛ فكلُّ هذا ظلمٌ يدخل تحت هذا النصِّ، ولهذا قال: {وترغبون أن تنكِحوهنَّ}؛ أي: ترغبون عن نكاحهنَّ أو في نكاحهنَّ كما ذكرنا تمثيلَه. {والمستضعفينَ من الوِلدانِ}؛ أي: ويُفتيكم في المستضعفين من الولدان الصغارِ أن تُعطوهم حقَّهم من الميراث وغيرِهِ، وأن لا تستولوا على أموالهم على وجه الظُّلم والاستبداد، {وأن تقوموا لليتامى بالقِسْط}؛ أي: بالعدل التامِّ، وهذا يشمَلُ القيامَ عليهم بإلزامِهم أمرَ الله وما أوجبه على عبادِهِ، فيكونُ الأولياءُ مكلَّفين بذلك يلزمونهم بما أوجبه الله، ويشملُ القيام عليهم في مصالحهم الدنيويَّة بتنمية أموالهم وطلبِ الأحظِّ لهم فيها وأن لا يقربوها إلا بالتي هي أحسن، وكذلك لا يُحابون فيهم صديقاً ولا غيره في تزوُّج وغيره على وجه الهضم لحقوقهم، وهذا من رحمته تعالى بعبادِهِ؛ حيث حثَّ غاية الحثِّ على القيام بمصالح مَن لا يقومُ بمصلحةِ نفسه لضعفِهِ وفقد أبيه. ثم حثَّ على الإحسان عموماً، فقال: {وما تفعلوا من خيرٍ}: لليتامى ولغيرهم، سواء كان الخير متعدياً أو لازماً، {فإنَّ الله كان به عليماً}؛ أي: قد أحاط علمُهُ بعمل العاملين للخير، قلَّةً وكثرةً، حسناً وضدّه، فيجازي كلًّا بحسب عمله.
- AyatMeaning
- [127] (اِسْتِفْتَاء) سے مراد ہے سائل کا مسؤل (مفتی یاعالم) سے اپنے مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم کا بیان طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے بارے میں خبر دی ہے کہ انھوں نے عورتوں کے بارے میں رسول اللہeسے استفتاء کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اس استفتاء کا جواب دیا ﴿ قُ٘لِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّ ﴾ ’’کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں تمھیں حکم دے رہا ہے‘‘ پس عورتوں کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ نے جو فتویٰ دیا ہے اس پر عمل کرو۔ عام طور پر اور خاص طور پر ان کے حقوق کو ادا کرو اور ان پر ظلم کرنا چھوڑ دو۔ یہ حکم عام ہے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں خواہ وہ بیویاں ہوں یا کوئی اور، چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں۔ امر و نہی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مشروع کیا ہے، سب کو شامل ہے۔ اس عموم کے بیان کرنے کے بعد ، اللہ تعالیٰ نے کمزور بچوں اور یتیموں کے معاملے میں اہتمام اور ان کے حقوق میں کوتاہی پر زجر و توبیخ کے طور پر، خصوصی وصیت فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمَا یُ٘تْ٘لٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ ﴾ یتیم عورتوں کے معاملے میں کتاب اللہ کے اندر جو کچھ تم پر تلاوت کیا جاتا ہے (اللہ تعالیٰ تمھیں اسی کا فتویٰ دیتا ہے۔)‘‘ ﴿ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَ٘هُنَّ مَا كُتِبَ لَ٘هُنَّ ﴾ ’’وہ جن کو تم نہیں دیتے، جو ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے‘‘ یہ اس وقت کی موجود حالت کے بارے میں خبر ہے۔ کیونکہ یتیم لڑکی جب کسی کی سرپرستی میں ہوتی تھی تو وہ اس کی حق تلفی کرتا اور اس پر ظلم کا ارتکاب کرتا تھا یا تو اس کا تمام مال یا اس کا کچھ حصہ کھا جاتا یا اس کو نکاح کرنے سے روکتا تاکہ اس کے مال سے فائدہ اٹھاتا رہے اور اس خوف سے کہ اگر اس نے اس کا نکاح کر دیا تو مال ہاتھ سے نکل جائے گا اور اگر وہ اس عورت میں رغبت نہیں رکھتا تو جس شخص سے یہ نکاح کرتی، اس پر شرائط وغیرہ عائد کرتا۔ یا اگر وہ اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اس کے ساتھ خود نکاح کرنے کی خواہش رکھتا تو اس کے مہر کو ساقط تو نہیں کرتا مگر وہ اسے اتنا حق مہر بھی ادا نہیں کرتا جتنے مہر کی وہ مستحق ہوتی۔ یہ تمام صورتیں ظلم کی تھیں، جو اس نص کے تحت آتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ ﴾ ’’تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت رکھتے ہو۔‘‘ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے گریز کرتے ہویا نکاح کرنے میں رغبت رکھتے ہو۔ جیسا کہ ہم نے اس کی مثال بیان کی ہے ﴿ وَالْ٘مُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ ﴾ ’’اور بے کس بچوں کے بارے میں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کمزور اور چھوٹے بچوں کے بارے میں تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم وراثت میں ان کا حق ادا کرو اور ظلم و استبداد سے ان کے مال پر قبضہ نہ جما لو۔ ﴿ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْ٘یَ٘تٰمٰى بِالْقِسْطِ ﴾ ’’اور یہ (بھی حکم دیتاہے)کہ یتیموں کے بارے میں پورے عدل و انصاف سے کام لو‘‘ اس حکم میں ان کے معاملات کی دیکھ بھال، ان سے ان احکام کا التزام کروانا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیے ہیں سب شامل ہیں اس بارے میں یتیموں کے سرپرست مکلف ٹھہرائے گئے کہ وہ ان سے اللہ تعالیٰ کے واجبات کا التزام کروائیں۔ اس حکم میں ان کے دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال، ان کے مال میں اضافہ کرنا اور ان کے لیے بہتری طلب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نیز یہ کہ اس کے سرپرست احسن طریقے سے ان کے مال کے قریب جائیں۔ اسی طرح ان کے نکاح وغیرہ میں ان کی حق تلفی کرتے ہوئے کسی دوست وغیرہ کی محبت کو ترجیح نہ دیں۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور انتہائی درجے کی ترغیب ہے کہ ان لوگوں کے مصالح کی دیکھ بھال کی جائے جو اپنی کمزوری اور اپنے باپ سے محروم ہونے کی بنا پر خود اپنے مفادات کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ پھر علی العموم بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ ﴾ ’’اور تم جو بھلائی کروگے۔‘‘ یعنی تم یتیموں یا دوسروں کے ساتھ جو بھلائی کرو گے خواہ یہ بھلائی متعدی ہو یا صرف تمھیں تک محدود ہو ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا ﴾ ’’اللہ اس کو جانتا ہے۔‘‘ یعنی نیک عمل کرنے والوں کے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے علم نے احاطہ کر رکھا ہے اعمال خواہ کم ہوں یا زیادہ، اچھے ہوں یا برے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [127
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF