Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
295
SegmentHeader
AyatText
{119} وهذا النصيب المفروض الذي أقسم لله أنهم يتخذهم ؛ ذَكَرَ ما يريدُ بهم، وما يقصدُه لهم بقوله: {ولأضِلَّنَّهم}؛ أي: عن الصراط المستقيم ضلالاً في العلم وضلالاً في العمل، {ولأمنِّينَّهم}؛ أي: مع الإضلال لأمنِّينَّهم أن ينالوا ما ناله المهتدونَ، وهذا هو الغرور بعينه، فلم يقتصِرْ على مجرَّد إضلالهم، حتى زيَّن لهم ما هم فيه من الضلال، وهذا زيادةُ شرٍّ إلى شرِّهم، حيث عملوا أعمال أهل النار الموجبة للعقوبة، وحسِبوا أنَّها موجبةٌ للجنة. واعتَبِرْ ذلك باليهود والنَّصارى ونحوهم؛ فإنهم كما حكى الله عنهم: {وقالوا لَن يَدْخُلَ الجنَّة إلاَّ مَن كان هوداً أو نصارى تلك أمانِيُّهم}، {وكذلك زينَّا لكلِّ أمةٍ عَمَلَهم}، {قل هل ننبِّئُكم بالأخسرينَ أعمالاً الذين ضلَّ سعيُهم في الحياة الدُّنيا وهم يحسَبون أنَّهم يحسنون صنعاً ... } الآية، وقال تعالى عن المنافقين: إنهم يقولون يوم القيامة للمؤمنين: {ألم نَكُن معكُم قالوا بلى ولكنَّكم فتنتُم أنفسَكم وتربَّصْتم وارتَبْتُم وغرَّتكم الأماني حتى جاء أمرُ الله وغرَّكم بالله الغَرورُ}. وقوله: {ولآمُرَنَّهم فَلَيُبَتِّكُنَّ آذان الأنعام}؛ أي: بتقطيع آذانها، وذلك كالبحيرة والسائبة والوصيلة والحام، فنبَّه ببعض ذلك على جمعيه، وهذا نوعٌ من الإضلال يقتضي تحريم ما أحلَّ الله، أو تحليل ما حرَّم الله، ويلتحق بذلك من الاعتقادات الفاسدة والأحكام الجائرة ما هو من أكبرِ الإضلال. {ولآمُرَنَّهم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ الله}: وهذا يتناول [تغيير] الخِلقة الظاهرة بالوشم والوَشْر والنَّمْص والتفلُّج للحسن، ونحو ذلك مما أغواهم به الشيطان، فغيَّروا خِلقة الرحمن، وذلك يتضمَّن التسخُّط من خلقتِهِ، والقدح في حكمتِهِ واعتقاد أنَّ ما يصنعونَه بأيديهم أحسنَ من خلقة الرحمن، وعدم الرِّضا بتقديرِهِ وتدبيرِهِ، ويتناول أيضاً تغيير الخِلقة الباطنةِ؛ فإن الله تعالى خَلَقَ عباده حنفاء، مفطورين على قَبول الحقِّ وإيثارِهِ، فجاءتهم الشياطين، فاجتالتْهم عن هذا الخَلْق الجميل، وزيَّنت لهم الشرَّ والشرك والكفر والفسوق والعصيان؛ فإنَّ كلَّ مولود يولد على الفطرة، ولكن أبواه يهوِّدانِه أو ينصِّرانِه أو يمجِّسانِه ونحو ذلك مما يغيِّرون به، ما فَطَرَ الله عليه العباد من توحيدِهِ وحبِّه ومعرفته، فافترستهم الشياطينُ في هذا الموضع افتراس السبع والذئاب للغنم المنفردةِ، لولا لطفُ الله وكرمُهُ بعباده المخلصينَ؛ لجرى عليهم ما جرى على هؤلاء المفتونين، وهذا الذي جرى عليهم من تولِّيهم عن ربِّهم وفاطرهم وتولِّيهم لعدوِّهم المريد لهم الشرَّ من كل وجه، فخسروا الدُّنيا والآخرة، ورجعوا بالخيبة والصفقةِ الخاسرة، ولهذا قال: {ومن يتَّخِذِ الشيطان وليًّا من دون الله فقد خَسِرَ خسراناً مبيناً}، وأيُّ خسارٍ أبين وأعظم ممن خَسِرَ دينه ودُنياه وأوبقته معاصيه وخطاياه فحصل له الشقاءُ الأبديُّ وفاته النعيم السرمديُّ؟! كما أن من تولَّى مولاه، وآثر رضاه، رَبِحَ كلَّ الرِّبح، وأفلح كلَّ الفلاح، وفاز بسعادةِ الدَّارين، وأصبح قرير العين. فلا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت، اللهم! تولَّنا فيمن تولَّيت، وعافنا فيمن عافيت.
AyatMeaning
[119] یہی وہ مقررہ حصہ ہے جس کے بارے میں شیطان نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ان سے ضرور حاصل کر کے رہے گا۔ اس نے بتا دیا ہے کہ وہ ان سے کیا چاہتا ہے اور ان کے بارے میں اس کے کیا مقاصد ہیں ﴿ وَّلَاُضِلَّنَّهُمْ۠ ﴾ ’’اور میں انھیں گمراہ کرتا رہوں گا۔‘‘ یعنی میں انھیں صراط مستقیم سے بھٹکاؤں گا اور علم و عمل میں انھیں گمراہ کر کے رہوں گا۔ ﴿ وَلَاُمَنِّیَنَّهُمْ ﴾ ’’اور انھیں امیدیں دلاتا رہوں گا۔‘‘ یعنی میں ان کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں بھی دلاتا رہوں گا کہ انھیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جو ہدایت یافتہ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور یہ عین فریب ہے۔ پس اس نے ان کو مجرد گمراہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے اس گمراہی کو ان کے سامنے آراستہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوئے اور یہ ان کی برائی میں مزید اضافہ ہے کہ انھوں نے اہل جہنم کے اعمال کیے جو عذاب کے موجب ہیں اور سمجھتے رہے کہ یہ اعمال انھیں جنت میں لے جائیں گے۔ ذرا یہود و نصاریٰ وغیرہ کا حال دیکھو، ان کا وہی رویہ ہے جس کی بابت اللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا۔ ﴿ لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰؔى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ ﴾ (البقرۃ : 2؍111) ’’کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا یہ ان کی محض باطل آرزوئیں ہیں۔‘‘ فرمایا: ﴿ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُ٘لِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ﴾ (الانعام : 6؍108) ’’اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے عمل کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا ہے۔‘‘ اور فرمایا ﴿ قُ٘لْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْ٘سَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ۰۰ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾ (الکہف : 18؍103۔104) ’’کہہ دو کہ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اعمال کے لحاظ سے خسارے میں کون ہیں؟ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے کہ قیامت کے روز وہ اہل ایمان سے کہیں گے ﴿ اَلَمْ نَؔكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَ٘رَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَغَرَّؔكُمْ بِاللّٰهِ الْ٘غَرُوْرُ ﴾ (الحدید : 57؍14) ’’کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے؟ اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہیں مگر تم نے اپنے تئیں فتنے میں ڈال لیا تھا اور ہمارے بارے میں حوادث زمانہ کے منتظر تھے اور تم شک میں مبتلا ہوئے۔ تمھیں آرزوؤں نے فریب میں مبتلا کیے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ گیا۔ اور دھوکے باز (شیطان) تمھیں اللہ کے بارے میں فریب دیتا رہا۔‘‘ ﴿ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُ٘نَّ۠ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ ﴾ ’’اور یہ حکم دیتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں۔‘‘ یعنی میں ان کو مویشیوں کے کان کاٹنے کا حکم دوں گا (تاکہ علامت بن جائے کہ یہ غیر اللہ کے نام پر چھوڑا ہوا جانور ہے) مثلاً ’’بَحِیرَہ‘‘ ’’سَائِبَہ‘‘ ’’وَصِیلَہ‘‘ اور ’’حَام‘‘ وغیرہ پس ایک کی طرف اشارہ کر کے تمام مراد لیے ہیں۔ گمراہی کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے اور حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرانے کی مقتضی ہے اور اسی میں فاسد اعتقادات اور ظلم و جور پر مبنی احکام بھی شامل ہیں جو بڑی گمراہیوں میں سے ہیں۔ ﴿ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ۠ خَلْ٘قَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور میں انھیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں گے‘‘ اس کا اطلاق ظاہری تخلیق پر ہوتا ہے یعنی گودنا، دانتوں کو باریک کرنا، چہرے سے بال اکھیڑنا اور دانتوں کے درمیان فاصلہ بنانا ان تمام چیزوں کے ذریعے سے شیطان نے لوگوں کو گمراہ کیا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی یہ حرکتیں اس بات کو متضمن ہیں کہ یہ لوگ اللہ کی پیدائش پر ناراض اور اس کی حکمت پر نکتہ چین ہیں۔ نیز ان کا اعتقاد ہے کہ وہ کام جو وہ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے ہیں وہ اللہ کی تخلیق سے بہتر ہے۔ نیز یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور تدبیر پر بھی راضی نہیں ہیں۔ شیطان کا یہ کام باطنی تخلیق کی تبدیلی کو بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حنیف بنا کر اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، ان میں قبول حق اور حق کو ترجیح دینے والوں کی فطرت تخلیق کی۔ شیاطین آئے اور انھوں نے ان کو اس خوبصورت تخلیق سے ہٹا دیا اور شر، شرک، کفر، فسق اور معصیت کو ان کے سامنے آراستہ کر دیا، اس لیے کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی محبت اور اس کی معرفت، وہ اس فطرت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اس مقام پر شیاطین بندوں کا اسی طرح شکار کرتے ہیں جس طرح درندے اور بھیڑیئے ریوڑ سے الگ ہونے والی بھیڑ بکریوں کو پھاڑ کھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو ان فتنہ زدہ لوگوں کا ہوا ہے۔ پس وہ بھی دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑ جاتے اور انھیں ناکامی اور گھاٹے کا منہ دیکھنا پڑتا۔ ان فتنہ زدہ لوگوں کا یہ حشر اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اپنے رب اور اپنے پیدا کرنے والے سے منہ موڑ کر ایسے دشمن کو اپنا سرپرست بنا لیا جو ہر لحاظ سے ان سے برائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّؔتَّؔخِذِ الشَّ٘یْطٰ٘نَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُ٘سْرَانًا مُّؔبِیْنًا﴾ ’’جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔‘‘ جو دین و دنیا کے خسارے میں پڑ جائے اور جسے اس کے گناہ اور نافرمانیاں ہلاک کر ڈالیں اس سے زیادہ واضح اور بڑا خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ وہ ہمیشہ رہنے والی نعمت سے محروم ہو کر ابدی بدبختی میں مبتلا ہو گئے۔ اسی طرح جو کوئی اپنے آقا اور مولا ہی کو اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی رضا کو ترجیح دیتا ہے، وہ ہر لحاظ سے فائدے میں رہتا ہے، ہر طرح سے فلاح پاتا ہے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرتا ہے اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ اے اللہ! جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز سے تو محروم کر دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا۔ اے اللہ! جن لوگوں کی تو نے سرپرستی فرمائی ان لوگوں کی معیت میں ہماری بھی سرپرستی فرما۔ اور جن لوگوں کو تو نے عافیت سے نوازا ان کے ساتھ ہمیں بھی عافیت سے نواز۔
Vocabulary
AyatSummary
[119
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List