Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 295
- SegmentHeader
- AyatText
- {117 ـ 118} أي: ما يدعو هؤلاء المشركون مِن دون الله إلا إناثاً؛ أي: أوثاناً وأصناماً مسمَّيات بأسماء الإناث؛ كالعزَّى ومناة ونحوهما. ومن المعلوم أنَّ الاسم دالٌّ على المسمَّى؛ فإذا كانت أسماؤها أسماءً مؤنَّثة ناقصةً؛ دلَّ ذلك على نقص المسمَّيات بتلك الأسماء وفقدها لصفات الكمال؛ كما أخبر الله تعالى في غير موضع من كتابه أنَّها لا تخلُقُ ولا ترزُقُ ولا تدفَعُ عن عابديها بل ولا عن نفسها نفعاً ولا ضرًّا ولا تنصُرُ أنفسها ممَّن يريدُها بسوءٍ، وليس لها أسماعٌ ولا أبصارٌ ولا أفئدةٌ؛ فكيف يُعْبَدُ من هذا وصفه ويترك الإخلاص لمن له الأسماءُ الحسنى، والصِّفات العليا، والحمدُ والكمال والمجدُ والجلال والعزُّ والجمال والرحمة والبرُّ والإحسان والانفراد بالخَلْق والتدبير والحكمة العظيمة في الأمر والتقدير؛ هل هذا إلا من أقبح القبيح الدالِّ على نقص صاحبه وبلوغه من الخِسَّة والدناءة أدنى ما يتصوَّره متصورٌ أو يصفه واصفٌ؟! ومع هذا فعبادتهم إنما صورتُها فقط لهذه الأوثان الناقصة، وبالحقيقة ما عبدوا غير الشيطان الذي هو عدوُّهم، الذي يريد إهلاكهم، ويسعى في ذلك بكلِّ ما يقدر عليه، الذي هو في غاية البعد من الله، لعنه الله وأبعده عن رحمتِهِ؛ فكما أبعده الله من رحمتِهِ، يسعى في إبعاد العباد عن رحمة الله، إنما يدعو حزبه ليكونوا من أصحاب السعير. ولهذا أخبر الله عن سعيه في إغواء العباد، وتزيين الشَّرِّ لهم، والفساد، وأنَّه قال لربِّه مقسماً: {لأتَّخِذَنَّ من عبادِكَ نصيباً مفروضاً}؛ أي: مقدَّراً، علم اللعين أنه لا يقدر على إغواء جميع عباد الله، وأن عباد الله المخلَصين ليس له عليهم سلطانٌ، وإنَّما سلطانُهُ على من تولاَّه وآثر طاعته على طاعة مولاه. وأقسم في موضع آخر لَيُغْوِيَنَّهم أجمعين؛ إلاَّ عبادَكَ منهم المُخْلَصين؛ فهذا الذي ظنه الخبيث، وجزم به، أخبر الله تعالى بوقوعه بقوله: {ولقد صدَّقَ عليهم إبليسُ ظنَّه فاتَّبعوه إلاَّ فريقاً من المؤمنين}.
- AyatMeaning
- [118,117] یعنی یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہیں سب مؤنث ہیں یعنی لوگ جن بتوں کو پوجتے ہیں وہ عورتوں جیسے ناموں سے موسوم ہیں۔ مثلاً ’’عزی‘‘ اور ’’مناۃ‘‘ وغیرہ۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اسم اپنے مسمی پر دلالت کرتا ہے اور جب ان بتوں کے نام مؤنث اور ناقص ہیں تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان اسماء کے مسمیات بھی ناقص اور صفات کمال سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ بت کوئی چیز تخلیق کر سکتے ہیں نہ رزق عطا کر سکتے ہیں نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی ذات تک کے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ اور اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ اپنی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان میں سماعت ہے نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت۔ جس کے یہ اوصاف ہوں وہ کیسے عبادت کا مستحق ہو سکتا ہے اور اس ہستی کے لیے اخلاص کو کیسے ترک کیا جا سکتا ہے جو اسمائے حسنی، صفات علیا، حمد و کمال، مجد و جلال، غلبہ و جمال، رحمت و احسان، تخلیق و تدبیر میں منفرد اور امر و تقدیر میں عظیم حکمت کی مالک ہے۔ کیا یہ بدترین قباحت نہیں ہے جو ان ہستیوں کے نقص پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی پرستش خساست و دناء ت کے اس انتہائی نچلے درجے پر پہنچی ہوئی ہے جس کا کوئی تصورکر سکتا ہے یا کوئی بیان کرنے والا بیان کر سکتا ہے؟ بایں ہمہ یہ لوگ جو ان ناقص بتوں کی عبادت کرتے ہیں محض ان کی شکل و صورت کی عبادت کرتے ہیں ورنہ درحقیقت وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کا دشمن ہے اور وہ ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ملعون قرار دے کر اپنی رحمت سے بہت دور کر دیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی رحمت سے دور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر : 35؍6) ’’وہ تو اپنے پیروکاروں کے گروہ کو محض اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گمراہ کرنے، شر اور فساد کو ان کے لیے مزین کرنے کی شیطانی کوششوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ شیطان نے قسم کھا کر اپنے رب سے کہا ہے ﴿ لَاَتَّؔخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا﴾ ’’میں ضرور لوں گا تیرے بندوں سے حصہ مقررہ‘‘ یعنی مقدر کیا ہوا حصہ۔ شیطان لعین کو علم تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر اس کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس کا بس تو صرف اسی پر چلتا ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتا ہے اور اس کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ترجیح دیتا ہے ایک اور مقام پر وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ ضرور ان کو گمراہ کرے گا ﴿ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ۰۰ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ (ص : 38؍82۔83) ’’میں ضرور ان سب کو بہکاتا رہوں گا سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔‘‘ یہ شیطان خبیث کا خیال تھا جس کو اس نے نہایت جزم کے ساتھ ظاہر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں اس کے وقوع کی خبر دی ہے ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہٗ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُوْمِنِیْنَ﴾ (سبا : 34؍20) ’’اور ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا قول سچ کر دکھایا کہ اہل ایمان کے ایک گروہ کے سوا سب نے اس کی پیروی کی۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [118
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF