Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
293
SegmentHeader
AyatText
{114} أي: لا خير في كثير مما يتناجى به الناس ويتخاطبون، وإذا لم يكنْ فيه خيرٌ؛ فإمّا لا فائدة فيه؛ كفضول الكلام المباح، وإما شرٌّ ومضرَّة محضةٌ؛ كالكلام المحرَّم بجميع أنواعه. ثم استثنى تعالى فقال: {إلاَّ من أمر بصدقةٍ}: من مال أو علم أو أيِّ نفع كان، بل لعلَّه يدخُل فيه العباداتُ القاصرةُ؛ كالتسبيح والتحميد ونحوِهِ؛ كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «إنَّ بكلِّ تسبيحةٍ صدقة، وكلِّ تكبيرة صدقة، وكلِّ تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة .... » الحديث. {أو معروفٍ}: وهو الإحسان والطاعة وكلُّ ما عُرِف في الشرع والعقل حسنُه، وإذا أُطلِقَ الأمرُ بالمعروف من غير أن يُقْرَنَ بالنَّهي عن المنكر؛ دخلَ فيه النهي عن المنكر؛ وذلك لأنَّ ترك المنهيّات من المعروف، وأيضاً لا يتمُّ فعل الخير إلا بترك الشرِّ، وأما عند الاقتران؛ فيفسَّر المعروف بفعل المأمور والمنكَر بترك المنهيِّ. {أو إصلاح بين الناس}: والإصلاحُ لا يكون إلاَّ بين متنازعينِ متخاصمينِ، والنِّزاع والخصام والتغاضُب يوجِب من الشَّرِّ والفرقة ما لا يمكن حصرُه؛ فلذلك حثَّ الشارع على الإصلاح بين الناس في الدِّماء والأموال والأعراض، بل وفي الأديان؛ كما قال تعالى: {واعتَصِموا بحبل الله جميعاً ولا تفرَّقوا}، وقال تعالى: {وإن طائفتان من المؤمنين اقْتَتَلوا فأصلحوا بينَهما، فإن بَغَتْ إحداهما على الأخرى فقاتِلوا التي تبغي حتَّى تفيءَ إلى أمر الله ... } الآية، وقال تعالى: {والصُّلْحُ خيرٌ}، والساعي في الإصلاح بين الناس أفضل من القانتِ بالصلاة والصيام والصدقة، والمصلِح لا بدَّ أن يُصْلِحَ الله سعيَه وعمله؛ كما أنَّ الساعي في الإفساد لا يُصْلِحُ الله عمله ولا يتم له مقصوده؛ كما قال تعالى: {إنَّ الله لا يُصْلِحُ عملَ المفسدين}؛ فهذه الأشياء حيثما فعلت؛ فهي خيرٌ؛ كما دلَّ على ذلك الاستثناء، ولكن كمال الأجر وتمامه بحسب النيَّة والإخلاص. ولهذا قال: {ومن يفعل ذلك ابتغاءَ مرضاةِ الله فسوف نؤتيه أجراً عظيماً}؛ فلهذا ينبغي للعبد أن يقصدَ وجه الله تعالى ويُخْلِصَ العمل لله في كلِّ وقت وفي كلِّ جزء من أجزاء الخير؛ ليحصلَ له بذلك الأجر العظيم، وليتعوَّد الإخلاص، فيكون من المخلصين. وليتمَّ له الأجر، سواءٌ تمَّ مقصودُه أم لا؛ لأنَّ النيَّة حصلت، واقترن بها ما يمكنُ من العمل.
AyatMeaning
[114] یعنی بہت سی ایسی سرگوشیاں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں ان میں کوئی بھلائی نہیں۔ اور جس کلام میں کوئی بھلائی نہ ہو تو وہ یا تو بے فائدہ کلام ہوتا ہے مثلاً فضول مگر مباح بات چیت۔ یا وہ محض شر ہوتا ہے مثلاً محرم کلام کی تمام اقسام۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثناء بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ ﴾ ’’ہاں وہ شخص جو صدقہ کا حکم دے۔‘‘ یعنی اس میں سے وہ شخص مستثنی ہے جو مال، علم یا کسی اور منفعت میں صدقہ کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ شاید بعض چھوٹی عبادات بھی اس زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ مثلاً تسبیح و تحمید وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرمeنے فرمایا: ’’ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر تہلیل صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے کسی کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔‘‘ الحدیث۔ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث:1006 ،صحیح مسلم، الزکاۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف، ح: 1006) ﴿ اَوْ مَعْرُوْفٍ ﴾ ’’یا نیک بات‘‘ معروف سے مراد بھلائی اور نیکی ہے اور ہر وہ کام، جسے شریعت نے نیکی قرار دیا اور عقل نے اس کی تحسین کی، معروف کے زمرے میں آتا ہے جب ’’اَمَر بِالْمَعْرُوف‘‘ کا لفظ ’’نَہْیِ عَنِ الْمُنْکَر‘‘ کے ساتھ ملائے بغیر استعمال کیا جائے تو برائی سے روکنا اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ منہیات کو ترک کرنا بھی نیکی ہے، نیز بھلائی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ برائی کو ترک نہ کر دیا جائے اور جب ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا ایک ساتھ ذکر ہو تو، ’’معروف‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہو ’’منکر‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے شریعت میں روکا گیا ہو۔ ﴿ اَوْ اِصْلَاحٍ ۭ بَیْنَ النَّاسِ ﴾ ’’یا لوگوں کے مابین صلح کرانے کا حکم کرے‘‘ اور اصلاح صرف دو جھگڑنے والوں کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ نزاع، جھگڑا، مخاصمت اور آپس میں ناراضی اس قدر شر اور تفرقہ کا باعث بنتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پس اسی لیے شارع نے لوگوں کو ان کے قتل، مال، اور عزت ناموس کے جھگڑوں میں اصلاح کی ترغیب دی ہے بلکہ تمام ادیان میں اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران : 3؍103) ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ فرمایا ﴿ وَاِنْ طَآىِٕفَتٰ٘نِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰؔىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَ٘بْغِیْ حَتّٰى تَ٘فِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ ﴾ (الحجرات : 49؍9) ’’اگر مومنوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَالصُّلْ٘حُ خَیْرٌ ﴾ (النساء: 4؍128) ’’اور صلح اچھی چیز ہے۔‘‘ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والا اس شخص سے بہتر ہے جو کثرت سے (نفلی) نماز روزے اور صدقہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح نہیں کرتا اور نہ اس کا مقصد پورا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾ (یونس : 10؍81) ’’اللہ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں کرتا۔‘‘ یہ تمام افعال جہاں کہیں بھی بجا لائے جائیں گے۔ بھلائی کے زمرے میں آئیں گے، جیسا کہ یہ استثناء دلالت کرتا ہے۔ مگر پورا اور کامل اجر بندے کی نیت پر منحصر ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَؔ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ ’’اور جو شخص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے‘‘ بنابریں بندے کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھے اور ہر وقت چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرے تاکہ اسے اجر عظیم حاصل ہو، تاکہ اس میں اخلاص کی عادت راسخ ہو اور وہ اہل اخلاص کے زمرے میں شمار ہو اور اس کے اجر کی تکمیل ہو خواہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو کیونکہ اس نے اس نیک مقصد کی نیت کی تھی اور امکان بھر اس پر عمل بھی کیا تھا۔
Vocabulary
AyatSummary
[114
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List