Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 292
- SegmentHeader
- AyatText
- {110} ثم قال تعالى: {ومَن يعملْ سوءاً أو يَظْلِمْ نفسَه ثم يستغفرِ الله يجدِ الله غفوراً رحيماً}؛ أي: من تجرَّأ على المعاصي واقتحم على الإثم، ثم استغفر الله استغفاراً تامًّا يستلزم الإقرار بالذنب والندم عليه والإقلاع والعزم على أن لا يعود؛ فهذا قد وَعَدَه من لا يُخْلِف الميعاد بالمغفرة والرحمة، فيغفر له ما صدر منه من الذَّنب، ويزيل عنه ما ترتَّب عليه من النقص والعيب، ويعيد إليه ما تقدَّم من الأعمال الصالحة، ويوفِّقه فيما يستقبله من عمرِهِ، ولا يجعل ذنبه حائلاً عن توفيقِهِ؛ لأنَّه قد غفره، وإذا غفره؛ غفر ما يترتَّب عليه. واعلم أنَّ عمل السوء عند الإطلاق يشملُ سائر المعاصي الصغيرة والكبيرة، وسُمِّي سوءاً لكونِهِ يسوءُ عامله بعقوبته، ولكونِهِ في نفسه سيئاً غير حسن، وكذلك ظلم النفس عند الإطلاق يَشْمَلُ ظلمها بالشِّرك فما دونَه، ولكن عند اقتران أحدِهما بالآخرِ قد يُفَسَّرُ كلُّ واحدٍ منهما بما يناسبه، فيفسَّر عمل السوء هنا بالظُّلم الذي يسوء الناس، وهو ظلمهم في دمائهم وأموالهم وأعراضهم، ويفسَّر ظلم النفس بالظُّلم والمعاصي التي بين الله وبين عبده، وسمي ظلم النفس ظلماً؛ لأن نفس العبد ليست مُلكاً له يتصرَّف فيها بما يشاء، وإنَّما هي ملك لله تعالى، قد جعلها أمانةً عند العبد، وأمره أن يُقيمها على طريق العدل بإلزامها للصراط المستقيم علماً وعملاً، فيسعى في تعليمها ما أمر به، ويسعى في العمل بما يجب، فسعيه في غير هذا الطريق ظلمٌ لنفسه وخيانةٌ وعدول بها عن العدل الذي ضده الجور والظلم.
- AyatMeaning
- [110] پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾ ’’اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پر پشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہو چکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کر دیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کر دیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔ آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ ’’برا عمل‘‘ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، شامل ہے اور (سوء) ’’برائی‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے۔ مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔ یہاں برے عمل کی تفسیر ’’ظلم‘‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون، مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم۔ اور نفس کے ظلم کی تفسیر ’’ظلم اور گناہ‘‘ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف و عدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [110
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF