Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
289
SegmentHeader
AyatText
{102} ولذلك أتى بصفة صلاة الخوف بعدها بقوله: {وإذا كنتَ فيهم فأقمتَ لهمُ الصَّلاة}؛ أي: صَلَّيْتَ بهم صلاةً تُقيمها وتُتِمُّ ما يجبُ فيها ويلزم فعلُهم ما ينبغي لك ولهم فعلُه، ثم فسَّر ذلك بقوله: {فَلْتَقُمْ طائفةٌ منهم معك}؛ أي: وطائفةٌ قائمةٌ بإزاء العدوِّ؛ كما يدلُّ على ذلك ما يأتي. {فإذا سجدوا}؛ أي: الذين معك؛ أي: أكملوا صلاتهم، وعبَّر عن الصلاة بالسُّجود؛ ليدلَّ على فضل السجود وأنَّه ركنٌ من أركانها، بل هو أعظمُ أركانها، {فليكونوا من ورائِكُم ولتأتِ طائفةٌ أخرى لم يصلُّوا}: وهم الطائفةُ الذين قاموا إزاءَ العدوِّ، {فَلْيُصَلُّوا معك}: ودلَّ ذلك على أنَّ الإمام يبقى بعد انصراف الطائفةِ الأولى منتظراً للطائفة الثانية؛ فإذا حضروا صلَّى بهم ما بقي من صلاته، ثم جلس ينتظِرُهم حتى يُكْمِلوا صلاتَهم، ثم يسلِّم بهم. وهذا أحد الوجوه في صلاة الخوف؛ فإنَّها صحَّت عن النبي صلى الله عليه (وسلم) من وجوه كثيرة كلها جائزة. وهذه الآية تدلُّ على أنَّ صلاة الجماعة فرض عين من وجهين: أحدهما: أنَّ الله تعالى أمر بها في هذه الحالة الشديدة وقت اشتداد الخوف من الأعداء وحذر مهاجمتهم؛ فإذا أوجبها في هذه الحالة الشديدة، فإيجابُها في حالة الطمأنينة والأمن من باب أولى وأحرى. والثاني: أنَّ المصلِّين صلاة الخوف يترُكون فيها كثيراً من الشُّروط واللوازم، ويُعفى فيها عن كثيرٍ من الأفعال المبطلة في غيرها، وما ذاك إلا لتأكُّد وجوب الجماعة؛ لأنَّه لا تعارض بين واجبٍ ومستحبٍّ؛ فلولا وجوب الجماعة؛ لم تتركْ هذه الأمور اللازمة لأجلها. وتدلُّ الآية الكريمة على أنَّ الأَوْلَى والأفضل أن يصلُّوا بإمام واحد ولو تضمَّن ذلك الإخلال بشيءٍ لا يخلُّ به لو صلَّوها بعدة أئمة، وذلك لأجل اجتماع كلمة المسلمين واتِّفاقهم وعدم تفرُّق كلمتِهِم، وليكونَ ذلك أوقع هيبةً في قلوب أعدائِهِم. وأمر تعالى بأخذ السلاح والحذر في صلاة الخوف، وهذا وإن كان فيه حركةٌ واشتغالٌ عن بعض أحوال الصلاة؛ فإنَّ فيه مصلحةً راجحةً، وهو الجمع بين الصلاة والجهاد والحَذَر من الأعداء الحريصين غايةَ الحرص على الإيقاع بالمسلمين والميل عليهم وعلى أمتعتهم، ولهذا قال تعالى: {ودَّ الذين كفروا لو تغفُلون عن أسلحتكِم وأمتعتِكم فيمليونَ عليكم ميلةً واحدةً}. ثم إنَّ الله عَذَرَ من له عُذْرٌ من مرض أو مطرٍ أن يَضَعَ سلاحَه، ولكن مع أخذ الحذرِ، فقال: {ولا جُناح عليكم إن كان بكم أذىً من مطرٍ أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم وخذوا حِذْركم إن الله أعدَّ للكافرين عذاباً مهيناً}، ومن العذابِ المهين ما أمر الله به حزبَهُ المؤمنين وأنصار دينِهِ الموحِّدين مِن قتلهم وقتالهم حيثما ثَقفوهم، ويأخذوهم، ويحصُروهم، ويقعدوا لهم كلَّ مرصدٍ، ويحذروهم في جميع الأحوال، ولا يغفلوا عنهم خشية أن ينال الكفار بعض مطلوبهم فيهم؛ فللهِ أعظم حمدٍ وثناءٍ على ما منَّ به على المؤمنين وأيَّدهم بمعونتِهِ وتعاليمه التي لو سَلَكوها على وجه الكمال؛ لم تهزمْ لهم رايةٌ، ولم يظهرْ عليهم عدوٌّ في وقتٍ من الأوقات. وقوله: {فإذا سَجَدوا فليكونوا من ورائكم}: يدلُّ على أنَّ هذه الطائفة تُكْمِلُ جميع صلاتها قبل ذهابهم إلى موضع الحارسين، وأنَّ الرسول - صلى الله عليه وسلم - يثبت منتظراً للطائفة الأخرى قبل السلام؛ لأنه أولاً ذكر أنَّ الطائفة تقوم معه، فأخبر عن مصاحبتهم له، ثم أضاف الفعل بعد إليهم دون الرسول، فدل ذلك على ما ذكرناه. وفي قوله {فلتأت طائفة أخرى لم يصلوا فليصلوا معك}: دليلٌ على أنَّ الطائفة الأولى قد صلوا، وأنَّ جميع صلاة الطائفة الثانية تكون مع الإمام حقيقةً في ركعتهم الأولى وحكماً في ركعتهم الأخيرة، فيستلزمُ ذلك انتظارَ الإمام إيَّاهم حتَّى يُكْمِلوا صلاتهم، ثم يُسَلِّم بهم. وهذا ظاهرٌ للمتأمِّل.
AyatMeaning
[102] بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔ ﴿ وَاِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰ٘وةَ ﴾ ’’اور (اے پیغمبر!) جب آپ ان (مجاہدین کے لشکر میں ہوں) اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔‘‘ یعنی جب آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں اور اس کے ان واجبات کو پورا کریں جن کا پورا کرنا آپ پر اور آپ کے اصحاب پر لازم ہے۔ پھر اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی تفسیر بیان فرمائی ﴿ فَلْتَقُمْ طَآىِٕفَةٌ مِّؔنْهُمْ مَّعَكَ ﴾ ’’تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہو‘‘ اور دوسری جماعت دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہو جیسا کہ آیت کا ٹکڑا ﴿ فَاِذَا سَجَدُوْا ﴾ ’’جب وہ سجدہ کرچکیں۔‘‘ اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو آپeکے ساتھ نماز میں شریک ہیں اپنی نماز مکمل کر لیں۔ یہاں نماز کو سجدے سے تعبیر کیا ہے تاکہ سجدے کی فضیلت ظاہر ہو۔ نیز یہ کہ سجدہ نماز کا رکن بلکہ سب سے بڑا رکن ہے۔ ﴿ فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَؔآىِٕكُمْ١۪ وَلْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْ٘رٰى لَمْ یُصَلُّوْا ﴾ ’’تو یہ تمھارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت آجائے جس نے نماز نہیں پڑھی‘‘ اور یہ وہ گروہ ہے جو دشمن کے مقابلے میں کھڑا تھا ﴿ فَلْ٘یُصَلُّوْا مَعَكَ ﴾ ’’اب یہ گروہ آپ کے ساتھ نماز پڑھے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے گروہ کے نماز سے چلے جانے کے بعد امام نماز میں باقی رہے اور دوسرے گروہ کا انتظار کرے جب دوسرا گروہ آجائے تو ان کے ساتھ اپنی باقی نماز پڑھے پھر بیٹھ جائے اور ان کا انتظار کرے جب وہ اپنی نماز مکمل کر لیں تو ان کے ساتھ سلام پھیرے۔یہ نماز خوف اد اکرنے کے متعدد طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ رسول اللہeسے نماز خوف کے متعدد طریقے مروی ہیں۔ ان تمام طریقوں سے نماز پڑھنا جائز ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نماز باجماعت دو وجوہ سے فرض عین ہے۔ اول: اللہ تعالیٰ نے خوف کی اس شدید حالت میں یعنی دشمن کے حملہ کے خوف کی حالت میں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا حکم دیا ہے۔ جب اس شدید حالت میں بھی جماعت کو واجب قرار دیا ہے تو امن و اطمینان کی حالت میں اس کا واجب ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ثانی: نماز خوف ادا کرنے والے نمازی نماز کی بہت سی شرائط اور لوازم کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس نماز میں نماز کو باطل کرنے والے بہت سے افعال کو نظرانداز کر کے ان کو معاف کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف جماعت کے وجوب کی تاکید کی بنا پر ہے۔ کیونکہ فرض اور مستحب میں کوئی تعارض نہیں۔ اگر جماعت کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض نہ ہوتا، تو اس کی خاطر نماز کے ان واجبات کو ترک کرنے کی کبھی اجازت نہ دی جاتی۔ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے۔ اگر ایسا کرنا کسی خلل کا باعث ہو تو متعدد ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے اجتماع و اتفاق اور ان کے عدم افتراق کی خاطر ہے تاکہ یہ اتفاق ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈال دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز خوف کے اندر مسلح اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نماز خوف میں اگرچہ کچھ زائد حرکات ہوتی ہیں اور نماز کے بعض احوال چھوٹ جاتے ہیں تاہم اس میں ایک راجح مصلحت ہے اور وہ ہے نماز اور جہاد کا اجتماع اور ان دشمنوں سے ہوشیار رہنا جو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے مال و متاع لوٹنے کے سخت حریص ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَاَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً﴾ ’’کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عذر کو قبول فرمایا جو کسی مرض یا بارش کی وجہ سے اپنا اسلحہ اتار دیتا ہے مگر بایں ہمہ وہ دشمن سے چوکنا ہے۔ ﴿ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ١ۚ وَخُذُوْا حِذْرَؔكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا ﴾ ’’ہاں! اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تمھیں تکلیف ہو بوجہ بارش کے یا تم بیمار ہو۔ اور بچاؤ کی چیزیں ساتھ رکھو۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اور اس کا رسوا کن عذاب یہ ہے کہ اس نے اہل ایمان اور اپنے دین کے موحدین انصار کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کو جہاں کہیں پائیں ان کو پکڑیں اور ان کو قتل کریں، ان کے ساتھ جنگ کریں، ان کا محاصرہ کریں، ہر جگہ ان کے لیے گھات لگائیں اور ہر حال میں ان سے چوکنا رہیں۔ ان کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کفار اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد و ثنا ہے کہ اس نے اہل ایمان پر احسان فرمایا اور اس نے اپنی مدد اور تعلیم کے ذریعے سے ان کی تائید فرمائی اگر وہ اس تعلیم پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں تو ان کاپرچم کبھی سرنگوں نہیں ہو سکتا اور کسی زمانے میں بھی دشمن ان پر غالب نہیں آ سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَؔآىِٕكُمْ ﴾ ’’جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہوجائیں۔‘‘ دلالت کرتا ہے کہ اس گروہ نے دشمن کے مقابلے میں جانے سے پہلے اپنی نماز مکمل کر لی تھی۔ اور یہ کہ رسول اللہeسلام پھیرنے سے پہلے دوسرے گروہ کے منتظر تھے۔ کیونکہ پہلے ذکر فرمایا کہ وہ گروہ نماز میں آپeکے ساتھ کھڑا ہو پس آپeسے ان کی مصاحبت کی خبر دی۔ پھر رسولeکو چھوڑ کر فعل کو ان کی طرف مضاف کیا یہ چیز ہمارے اس موقف پر دلالت کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَلْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْ٘رٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْ٘یُصَلُّوْا مَعَكَ ﴾ ’’پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے‘‘ اس امر پر دلیل ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ چکا تھا۔ اور دوسرے گروہ کی تمام نماز امام کی معیت میں پڑھی گئی۔ ان کی پہلی رکعت حقیقی طور پر امام کے ساتھ تھی اور دوسری حکمی طور پر۔ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ امام ان کا انتظار کرے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں پھر ان کے ساتھ سلام پھیرے۔ یہ چیز غور کرنے والے پر صاف واضح ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[102
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List