Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 289
- SegmentHeader
- AyatText
- {101} هاتان الآيتان: أصل في رخصة القصر وصلاة الخوف، يقول تعالى: {وإذا ضربتُم في الأرض}؛ أي: في السفر، وظاهر الآية أنه يقتضي الترخُّص في أي سفر كان، ولو كان سفر معصية؛ كما هو مذهب أبي حنيفة رحمه الله، وخالف في ذلك الجمهور، وهم الأئمة الثلاثة وغيرهم، فلم يجوِّزوا الترخيص في سفر المعصية؛ تخصيصاً للآية بالمعنى والمناسبة؛ فإنَّ الرخصة سهولةٌ من الله لعباده إذا سافروا أن يقصُروا ويفطروا، والعاصي بسفره لا يناسب حاله التخفيف. وقوله: {فليس عليكم جناح أن تقصُروا من الصلاة}؛ أي: لا حرج ولا إثم عليكم في ذلك. ولا ينافي ذلك كون القصر هو الأفضل؛ لأن نفي الحرج إزالةٌ لبعض الوهم الواقع في كثيرٍ من النفوس، بل ولا ينافي الوجوب؛ كما تقدَّم ذلك في سورة البقرة في قوله: {إن الصَّفا والمروة من شعائرِ الله ... } إلى آخر الآية، وإزالة الوهم في هذا الموضع ظاهرة؛ لأنَّ الصلاة قد تقرَّر عند المسلمين وجوبُها على هذه الصفة التامَّة، ولا يزيل هذا عن نفوس أكثرهم إلا بذكر ما ينافيه. ويدلُّ على أفضلية القصر على الإتمام أمران: أحدُهما: ملازمة النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - على القصر في جميع أسفاره. والثاني: أن هذا من باب التوسعة والترخيص والرحمة بالعباد، والله تعالى يُحِبُّ أن تُؤتى رُخَصُه، كما يكره أن تُؤتى معصيَتُه. وقوله: {أن تقصُروا من الصلاة}، ولم يقل: أن تقصُروا الصلاة: فيه فائدتان: إحداهما: أنه لو قال: أن تقصروا الصلاة؛ لكان القصرُ غيرَ منضبط بحدٍّ من الحدود، فربَّما ظنَّ أنه لو قَصَرَ معظم الصلاة وجعلها ركعةً واحدةً؛ لأجزأ؛ فإتيانه بقوله: {من الصلاة}؛ ليدل ذلك على أن القصر محدودٌ مضبوطٌ مرجوعٌ فيه إلى ما تقرَّر من فعل النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه. الثانية: أنَّ {من} تفيدُ التبعيض؛ ليعلم بذلك أن القصر لبعض الصلواتِ المفروضاتِ لا جميعها؛ فإنَّ الفجر والمغرب لا يُقصران، وإنما الذي يُقْصَر الصلاة الرباعية من أربع إلى ركعتين. فإذا تقرَّر أنَّ القصر في السفر رخصةٌ؛ فاعلمْ أنَّ المفسِّرين قد اختلفوا في هذا القيد، وهو قولُهُ: {إن خفتم أن يَفْتِنَكُمُ الذين كفروا}، الذي يدلُّ ظاهرُهُ أنَّ القصر لا يجوزُ إلا بوجود الأمرين كليهما السفر مع الخوف، ويرجِعُ حاصل اختلافهم إلى أنه هل المرادُ بقوله: {أن تقصُروا}: قصرُ العدد فقط أو قصرُ العدد والصفة؟ فالإشكال إنما يكون على الوجه الأوَّل. وقد أشكل هذا على أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، حتَّى سأل عنه النبيَّ - صلى الله عليه وسلم -، فقال: يا رسول الله! ما لنا نقصُرُ الصلاة وقد أمِنَّا؟ أي: والله يقولُ: {إن خِفْتُم أن يَفْتِنَكُمُ الذين كفروا}. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «صدقةٌ تصدَّق الله بها عليكم؛ فاقبلوا صَدَقَتَهُ». أو كما قال. فعلى هذا يكون هذا القيد أتى به نظراً لغالب الحال التي كان النبيُّ - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه عليها؛ فإنَّ غالب أسفاره أسفار جهاد. وفيه فائدةٌ أخرى: وهي بيان الحكمة والمصلحة في مشروعية رخصة القصر؛ فبيَّن في هذه الآية أنْهَى ما يُتَصَوَّر من المشقة المناسبة للرخصة، وهي اجتماع السفر والخوف، ولا يستلزم ذلك أن لا يُقْصَرَ مع السفر وحده الذي هو مَظِنَّة المشقَّة. وأما على الوجه الثاني، وهو أنَّ المراد بالقصر [هنا] قصرُ العدد والصِّفة؛ فإنَّ القيدَ على بابِهِ؛ فإذا وجد السفر والخوف؛ جاز قصرُ العدد وقصرُ الصفة، وإذا وُجِدَ السفر وحده؛ جاز قَصْرُ العدد فقط، أو الخوف وحدَه؛ جاز قصرُ الصفة.
- AyatMeaning
- [101] یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لیے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’جب چلو تم زمین میں‘‘ یعنی سفر کے دوران۔ آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نمازمیں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہو، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کر لیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ﴿ فَ٘لَ٘یْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَ٘قْ٘صُرُوْا مِنَ الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘‘ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفئ حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منافی نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورۂ البقرۃ کی اس آیت میں گزر چکی ہے ﴿ اِنَّ الصَّفَا وَالْ٘مَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ...الی آخر الآیۃ ﴾ (البقرۃ : 2؍158) ’’صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں… آیت کے آخر تک۔‘‘ اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے۔ اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضلیت کو دو امور ثابت کرتے ہیں: اول: رسول اللہeکا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔ ثانی: قصر، بندوں کے لیے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَنْ تَ٘قْ٘صُرُوْا مِنَ الصَّلٰ٘وةِ ﴾ ’’نماز میں سے کچھ کم کر دو‘‘ اور یہ نہیں فرمایا (اَنْ تَقْصُرُوا الصَّلٰوۃَ) ’’نماز کو کم کر دو‘‘ اس میں دو فائدے ہیں: اول: اگر یہ کہا ہوتا کہ ’’نماز کو کم کر دو‘‘ تو قصر غیر منضبط اور غیر محدود ہوتی۔ اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کر دیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے (مِنَ الصَّلٰوۃِ) کا لفظ استعمال فرمایا۔ تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہeاور آپ کے اصحاب کرامyکے فعل سے ثابت ہے۔ ثانی: حرف جار (مِنْ) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہو گئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے ﴿ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا﴾ ’’اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے‘‘ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (اَنْ تَقْصُرُوْا) سے مراد صرف عدد رکعات میں کمی ہے یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے؟ اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطابtکو لاحق ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انھوں نے رسول اللہeسے پوچھا ’’یارسول اللہ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے ﴿ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ﴾ ’’اگر تمھیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے‘‘ رسول اللہeنے جواب میں فرمایا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو‘‘(اَوْ کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ)(صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین وقصرہا، حديث:1573) اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہeاور صحابہ کرام دو چار تھے۔ کیونکہ رسول اللہeکے اکثر سفر جہاد کے لیے ہوتے تھے۔ اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باب کے مطابق ہو گی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [101
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF