Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 22
- SegmentHeader
- AyatText
- {48} وخوفهم بيوم القيامة الذي: {لا تجزي}؛ فيه أي لا تغني {نفس}؛ ولو كانت من الأنفس الكريمة كالأنبياء والصالحين، {عن نفس}؛ ولو كانت من العشيرة الأقربين، {شيئاً}؛ لا كبيراً ولا صغيراً وإنما ينفع الإنسانَ عملُه الذي قدمه {ولا يقبل منها}؛ أي: النفس، {شفاعة}؛ لأحد بدون إذن الله ورضاه عن المشفوع له، ولا يرضى من العمل إلا ما أُريد به وجهه وكان على السبيل والسنة، {ولا يؤخذ منها عدل}؛ أي فداء ولو أن لكل نفس ظلمت ما في الأرض جميعاً ومثله معه لافتدوا به من عذاب الله ولا يقبل منهم ذلك، {ولا هم ينصرون}؛ أي: يدفع عنهم المكروه، فنفى الانتفاعَ من الخلق بوجه من الوجوه، فقوله: {لا تَجْزِي نفس عن نفس شيئاً} هذا في تحصيل المنافع، {ولا هم ينصرون} هذا في دفع المضار، فهذا النفي للأمر المستقبل به النافع، {ولا يقبل منها شفاعة ولا يؤخذ منها عدل} هذا نفي للنفع الذي يطلب ممن يملكه بعوض، كالعدل أو بغيره كالشفاعة؛ فهذا يوجب للعبد أن ينقطع قلبه من التعلق بالمخلوقين لعلمه أنهم لا يملكون له مثقال ذرة من النفع، وأن يعلقه بالله الذي يجلب المنافع ويدفع المضار فيعبده وحده لا شريك له، ويستعينه على عبادته.
- AyatMeaning
- [48] اور انھیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ ﴿ لَّا تَجْزِیْ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں ﴿ عَنْ نَّ٘فْ٘سٍ ﴾ اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ شَیْـًٔؔا﴾ ’’کچھ بھی‘‘ یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آ سکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے ﴿ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ ﴾ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہو گی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور جس کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی، اس کو بھی وہ پسند کرتا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسی عمل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لیے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہو گا (گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہو گا نہ ہر کسی کے لیے شفاعت ہی کی جا سکے گی) ۔ ﴿ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ﴾ یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ ﴾(الزمر : 39؍47) ’’اگر ان لوگوں کے پاس جنھوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو اور وہ برے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں دیں۔‘‘ (تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا) ﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے‘‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کر دی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿لاَ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا﴾ حصول منافع کے بارے میں ہے اور ﴿وَلاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ نفی مستقبل میں کسی امر نافع کے بارے میں ہے۔ ﴿وَلاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ﴾یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا جاتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھی تو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں۔ اور اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔ یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا:
- Vocabulary
- AyatSummary
- [48]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF