Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
286
SegmentHeader
AyatText
{95 ـ 96} أي: لا يستوي مَن جاهد من المؤمنين بنفسِهِ ومالِهِ ومن لم يخرجْ للجهاد ولم يقاتِلْ أعداء الله؛ ففيه الحث على الخروج للجهاد والترغيب في ذلك والترهيب من التَّكاسل والقعود عنه من غير عذر، وأما أهل الضَّرر كالمريض والأعمى والأعرج والذي لا يجدُ ما يتجهَّزُ به؛ فإنهم ليسوا بمنزلة القاعدين من غير عذر؛ فمن كان من أولي الضرر راضياً بقعوده، لا ينوي الخروج في سبيل الله لولا وجود المانع ولا يحدِّث نفسه بذلك؛ فإنه بمنزلة القاعد لغير عذر، ومن كان عازماً على الخروج في سبيل الله لولا وجود المانع يتمنَّى ذلك ويحدِّث به نفسَه؛ فإنه بمنزلة من خرج للجهاد؛ لأنَّ النيَّة الجازمة إذا اقترن بها مقدورُها من القول أو الفعل، يُنَزَّلُ صاحبها منزلة الفاعل. ثمَّ صرَّح تعالى بتفضيل المجاهدين على القاعدين بالدرجة؛ أي: الرفعة، وهذا تفضيل على وجه الإجمال، ثم صرَّح بذلك على وجه التفصيل، ووعدهم بالمغفرة الصادرة من ربِّهم والرحمة التي تشتَمِلُ على حصول كلِّ خير واندفاع كلِّ شرٍّ، والدرجات التي فصلها النبي - صلى الله عليه وسلم - بالحديث الثابت عنه في «الصحيحين»: «إن في الجنة مائة درجة، ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، أعدها الله للمجاهدين في سبيله». وهذا الثواب الذي رتَّبه الله على الجهاد نظير الذي في سورة الصفِّ في قوله: {يا أيُّها الذين آمنوا هل أدلُّكم على تجارةٍ تُنجيكم من عذابٍ أليم. تؤمنون بالله ورسولِهِ وتجاهِدون في سبيل اللهِ بأموالِكم وأنفسِكم ذلكم خيرٌ لكم إن كنتُم تعلَمون. يَغْفِرْ لكُم ذُنوبَكُم ويُدْخِلْكم جناتٍ تجري من تحتِها الأنهارُ ومساكنَ طيبةً في جنَّاتِ عدنٍ ذلك الفوزُ العظيم ... } إلى آخر السورة. وتأمَّل حُسْنَ هذا الانتقال من حالةٍ إلى أعلى منها؛ فإنه نفى التسوية أولاً بين المجاهد وغيره، ثم صرَّح بتفضيل المجاهدِ على القاعِد بدرجةٍ، ثمَّ انتقل إلى تفضيلِهِ بالمغفرةِ والرحمةِ والدَّرجات. وهذا الانتقال من حالة إلى أعلى منها عند التفضيل والمدح أو النزول من حالةٍ إلى ما دونَها عند القدح والذمِّ أحسنُ لفظاً وأوقع في النفس، وكذلك إذا فضَّل تعالى شيئاً على شيءٍ، وكلٌّ منهما له فضلٌ؛ احترز بذكر الفضل الجامع للأمرين؛ لئلا يتوهَّم أحد ذمَّ المفضَّل عليه؛ كما قال هنا: {وكلاًّ وَعَدَ الله الحسنى}، وكما قال تعالى في الآيات المذكورة في الصَّفِّ في قوله: {وبشِّرِ المؤمنين}، وكما في قوله تعالى: {لا يستوي منكُم مَن أنفق مِن قبل الفتح وقاتَلَ}؛ أي: ممَّن لم يكن كذلك، ثم قال: {وكلاًّ وَعَدَ الله الحسنى}، وكما قال تعالى: {ففهَّمْناها سليمانَ وكلاًّ آتَيْنا حُكماً وعلماً}. فينبغي لمن بَحَثَ في التفضيل بين الأشخاص والطوائف والأعمال أن يتفطن لهذه النكتة، وكذلك لو تكلَّم في ذمِّ الأشخاص والمقالات؛ ذكر ما تجتمع فيه عند تفضيل بعضِها على بعض؛ لئلاَّ يُتَوَهَّم أن المفضَّل قد حصل له الكمال؛ كما إذا قيل: النصارى خيرٌ من المجوس؛ فليقلْ مع ذلك: وكلٌّ منهما كافر. والقتلُ أشنع من الزِّنا، وكلٌّ منهما معصيةٌ كبيرةٌ، حرَّمها الله ورسولُهُ، وزَجَرَ عنها. ولمَّا وَعَدَ المجاهدين بالمغفرة والرحمةِ الصادِرَيْن عن اسميهِ الكريمين الغفور الرحيم؛ خَتَمَ هذه الآية بهما، فقال: {وكان الله غفوراً رحيماً}.
AyatMeaning
[96,95] یعنی اہل ایمان میں سے وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ذریعے سے جہاد کرتا ہے اور وہ شخص جو جہاد کے لیے نہیں نکلتا اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ قتال نہیں کرتا، دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے کی ترغیب ہے اور سستی اور کسی عذر کے بغیر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ رہے وہ لوگ جو کسی تکلیف میں مبتلا ہیں مثلاً مریض، اندھا اور لنگڑا وغیرہ اور وہ شخص جس کے پاس جہاد پر جانے کے لیے سامان وغیرہ نہیں، تو یہ لوگ بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے۔ ہاں! وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا ہے اور وہ اپنے گھر بیٹھ رہنے پر خوش اور راضی ہے اور وہ یہ نیت بھی نہیں رکھتا کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ جہاد میں ضرور شریک ہوتا۔ اور اس کے دل میں کبھی جہاد کی خواہش بھی نہیں ہوئی تو ایسا شخص بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار ہو گا۔ جو کوئی یہ عزم رکھتا ہے کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا، وہ جہاد کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اور اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ہے تو ایسا شخص جہاد کرنے والوں میں شمار ہو گا۔ کیونکہ نیت جازم کے ساتھ جب وہ عمل مقرون ہوتا ہے جو قولاً یا فعلاً نیت کرنے والے کے اختیار میں ہے تو وہ اس صاحب نیت کو فاعل کے مقام پر فائز کر دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ مجاہدین کو گھر بیٹھ رہنے والوں پر بلندئ درجات کی فضیلت سے نوازا ہے۔ یہ فضیلت اجمالاً بیان فرمائی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا جو ہر بھلائی کے حصول اور ہر برائی کے سدباب پر مشتمل ہے۔ صحیحین میں مروی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہeنے ان درجات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’جنت کے اندر سو درجے ہیں اور ان ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ اس جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘(صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین في سبيل اللہ، حديث:2790) یہ ثواب جو اللہ تعالیٰ نے جہاد پر مرتب کیا ہے اس کی نظیر سورۂ صف کی یہ آیات ہیں : ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۰۰تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ٘ وَتُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ۰۰ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَیُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ وَمَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ (الصف : 61؍10-12) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمھیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے نجات دے، تم اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرو۔ اگر تم علم رکھتے ہو تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔ جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور جنت جاوداں میں پاکیزہ آرام گاہوں میں داخل کرے گا، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ذرا حسن انتقال پر غور فرمائيے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حالت سے دوسری بلند تر حالت کی طرف منتقل ہونے کا کیسے ذکر فرمایا ہے۔ سب سے پہلے مجاہد اور غیر مجاہد کے درمیان مساوات (برابر ہونے) کی نفی فرمائی۔ پھر تصریح فرمائی کہ مجاہد کو گھر بیٹھ رہنے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے پھر مغفرت، رحمت اور بلند درجات کے ذریعے سے مجاہد کو فضیلت عطا کرنے کی طرف انتقال فرمایا۔ فضیلت اور مدح کے موقع پر فروتر سے بلند تر حالت کی طرف اور مذمت اور برائی کے موقع پر بلند تر حالت سے فروتر حالت کی طرف یہ انتقال، لفظوں کے اعتبار سے حسین تر اور نفوس انسانی میں کارگر ہونے کے اعتبار سے مؤثر تر ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیتا ہے جبکہ دونوں ہی کو فضیلت حاصل ہو تو وہ ایسے لفظ کے ساتھ فضیلت بیان کرنے سے احتراز کرتا ہے جو دونوں کا جامع ہو۔ تاکہ کسی کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ کم تر فضیلت کی حامل چیز کی مذمت بیان کی ہے۔ جیسا کہ یہاں بیان فرمایا ﴿ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى﴾ ’’اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ محولہ بالا سورۂ صف کی آیات میں فرمایا ﴿ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے‘‘ فرمایا: ﴿ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْ٘فَ٘تْحِ وَقٰتَلَ﴾ (الحدید : 57؍10) ’’تم میں سے جس شخص نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جس نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کیے) برابر نہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ﴿ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى﴾ (الحدید : 57؍10) ’’اور اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔‘‘ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَ٘یْمٰنَ١ۚ وَؔكُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾ (الانبیاء : 21؍79) ’’پس فیصلہ کرنے کا طریقہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو علم و حکمت عطا کی تھی۔‘‘ پس جو کوئی شخصیات کے درمیان، گروہوں کے درمیان اور اعمال کے درمیان فضیلت کی تحقیق کرتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اس نکتہ کو خوب سمجھ لے۔ اسی طرح اگر وہ بعض شخصیات اور مقالات کی مذمت بیان کرتا ہے تو ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے کے لیے ایسا اسلوب استعمال کرے جو دونوں کو جامع ہو۔ تاکہ جس کو فضیلت دی گئی ہے وہ اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ اسے کمال حاصل ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جائے کہ نصاریٰ مجوسیوں سے بہتر ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ دونوں ہی کافر ہیں۔ جب یہ کہا جائے قتل زنا سے زیادہ بڑا جرم ہے تو ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ دونوں گناہ کبیرہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeنے حرام قرار دیا ہے اور ان گناہوں پر زجر و توبیخ کی ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجاہدین کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو اس کے اسمائے کریمہ (اَلْغَفُوْرُ) اور (اَلرَّحِیْمُ) سے صادر ہوتی ہیں اس لیے اس آیت کریمہ کے اختتام پر فرمایا ﴿ وَكَانَ اللّٰهُ غَ٘فُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ ’’اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[96,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List