Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
280
SegmentHeader
AyatText
{86} التحية: هي اللفظ الصادر من أحد المتلاقيين على وجه الإكرام والدُّعاء وما يقترن بذلك اللفظ من البشاشة ونحوها، وأعلى أنواع التحية ما ورد به الشرعُ من السلام ابتداءً وردًّا، فأمر تعالى المؤمنين أنَّهم إذا حُيُّوا بأيِّ تحيَّة كانت أن يردُّوها بأحسن منها لفظاً وبشاشةً أو مثلها في ذلك، ومفهوم ذلك النهي عن عدم الردِّ بالكلِّيَّة أو رَدِّها بدونها. ويؤخذ من الآية الكريمة الحثُّ على ابتداء السلام والتحيَّة من وجهين: أحدهما: أنَّ الله أمر بردِّها بأحسنَ منها أو مثلِها، وذلك يستلزم أن التحيَّة مطلوبةٌ شرعاً. والثاني: ما يُستفادُ من أفعل التفضيل، وهو أحسن، الدالُّ على مشاركة التحيَّة وردِّها بالحسن؛ كما هو الأصل في ذلك. ويستثنى من عموم الآية الكريمة من حيَّا بحال غير مأمورٍ بها؛ كعلى مشتغل بقراءةٍ أو استماع خطبةٍ أو مصلٍّ ونحو ذلك؛ فإنه لا يُطلب إجابةُ تحيَّته، وكذلك يُستثنى مِن ذلك مَن أمر الشارع بهجره وعدم تحيَّته، وهو العاصي غير التائب، الذي يرتدِعُ بالهجر؛ فإنَّه يُهْجَرُ ولا يُحَيَّا ولا تُرَدُّ تحيَّته، وذلك لمعارضة المصلحة الكبرى، ويدخل في ردِّ التحيَّة كلُّ تحيَّة اعتادها الناس، وهي غير محظورة شرعاً؛ فإنه مأمورٌ بردِّها أو أحسن منها. ثم أوعد تعالى وتوعَّد على فعل الحسنات والسيئاتِ بقوله: {إنَّ الله كان على كلِّ شيءٍ حسيباً}: فيحفظُ على العباد أعمالهم حَسَنها وسيِّئها، صغيرها وكبيرها، ثم يجازيهم بما اقتضاه فضلُه وعدلُه وحكمُه المحمود.
AyatMeaning
[86] (تَحِیَّۃ) کا لفظ دو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے عزت و احترام نیز دعا اور بشاشت وغیرہ کے طور پر صادر ہوتا ہے۔ سلام و دعا کا بہترین طریقہ وہ ہے جو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے بارے میں شریعت میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب انھیں کسی بھی طریقے سے سلام کیا جائے تو وہ الفاظ اور بشاشت کے اعتبار سے اس سے بہتر یا اسی طریقے سے سلام کا جواب دیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلام کا بالکل جواب نہ دینے یا کمتر طریقے سے جواب دینے سے روکا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ نے سلام کا بہتر طریقے سے یا ویسا ہی جواب دینے کا حکم دیا ہے اور اس سے یہ امر لازم آتا ہے کہ سلام درحقیقت شرعاً مطلوب ہے۔ (۲) لفظ (اَحَسَنَ) سے جو کہ ’’اَفْعَلُ التَّفْضِیْل‘‘ ہے، جو چیز مستفاد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سلام اور اس کا جواب لفظ ’’حسن‘‘ میں دونوں شریک ہیں جیسا کہ اس بارے میں یہ چیز اصل ہے۔ آیت کریمہ کے عموم سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو کسی کو ایسے حال میں سلام کرتا ہے جس میں اسے سلام کرنے کا حکم نہ تھا۔ مثلاً کسی ایسے شخص کو سلام کرنا جو قراء ت قرآن میں مشغول ہو، خطبہ سن رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو۔( لیکن شریعت نے ان حالتوں میں سلام کرنے سے کہاں منع کیا ہے؟ اس لیے فاضل مفسر کا ان مقامات کو مستثنیٰ کرنا بلا دلیل ہے۔ بلکہ یہ مقامات بھی سلام کرنے کے عموم میں داخل ہیں اور نماز کی حالت میں سلام کرنے کی اور اشارے کے ساتھ جواب دینے کی صراحت ترمذی کی حدیث میں موجود ہے) (ص۔ی) کیونکہ وہ اپنے سلام کے جواب کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح وہ شخص بھی آیت کریمہ کے عموم سے مستثنیٰ ہے جس سے قطع کلامی اور سلام نہ کرنے کا حکم شارع نے دیا ہو۔ یہ وہ نافرمان شخص ہے جس نے توبہ نہ کی ہو جو بول چال اور سلام کی بندش کی وجہ سے نافرمانیوں سے باز آ جاتا ہے۔ پس ایسے شخص سے بول چال بند کر دی جائے اسے سلام کیا جائے نہ سلام کا جواب دیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی مصلحت کے قیام کی خاطر ہے۔ سلام کا جواب دینے میں ہر قسم کے سلام کا جواب دینا شامل ہے جس کے لوگ عام طور پر عادی ہیں۔ ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں، کیونکہ بندہ سلام کا جواب دینے اور اس سے بہتر جواب دینے پر مامور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں پر ثواب کا وعدہ اور برائی کے کاموں پر وعید سنائی ہے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ﴾ پس وہ اپنے بندوں کے اچھے برے اور چھوٹے بڑے تمام اعمال کا حساب رکھتا ہے پھر وہ اپنے فضل و عدل اور قابل تعریف فیصلے کے تقاضے کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا۔
Vocabulary
AyatSummary
[86]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List